1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت: کیا یوگی ادیتیہ ناتھ اگلے وزیر اعظم بن سکتے ہیں؟

12 فروری 2022

اترپردیش کے اسمبلی انتخابات شروع ہوچکے ہیں۔ ریاست کی اقلیتوں کو یہ خوف لاحق ہے کہ اگر ہندو قوم پرست وزیر اعلیٰ یوگی ادیتیہ ناتھ دوسری مرتبہ اقتدار پر فائز ہوگئے تو اقلیتوں کے خلاف مبینہ ظلم و تشدد کا سلسلہ تیز ہوجائے گا۔

https://p.dw.com/p/46unK
یوگی ادیتیہ ناتھ
یوگی ادیتیہ ناتھتصویر: PAWAN KUMAR/REUTERS

بھارت کی سیاسی لحاظ سے سب سے اہم اور سب سے بڑی آبادی والی ریاست اترپردیش میں اسمبلی انتخابات کے پہلے مرحلے کی پولنگ 10 فروری کو ہوچکی ہے۔ 403 رکنی ریاستی اسمبلی کے لیے مجموعی طور پر سات مرحلوں میں ووٹ ڈالے جائیں گے۔ آخری مرحلے کی پولنگ 7مارچ کو ہوگی جبکہ نتائج 10مارچ کو سامنے آئیں گے۔

اس اسمبلی الیکشن میں اترپردیش میں حکمراں بی جے پی کی قسمت داؤ پر ہے جہاں سے تقریباً پندرہ فیصد اراکین پارلیمان بھارت کے ایوان زیریں میں پہنچتے ہیں۔ اس طرح اترپردیش بھارت کے وزیر اعظم کے تعین میں اہم رول ادا کرتاہے۔ بھارت کے اب تک چودہ وزرائے اعظم میں سے موجودہ وزیراعظم نریندر مودی سمیت نو وزرائے اعظم کا تعلق یو پی سے رہا ہے۔

بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ یوگی ادیتیہ ناتھ مستقبل کے بی جے پی کے وزیر اعظم کے عہدے کے امیدوار بن سکتے ہیں۔جس سے قوم پرستی میں اضافہ ہوسکتا ہے اور دائیں بازو کی انتہاپسندی میں شدت آسکتی ہے۔ ادیتیہ ناتھ وزیراعظم مودی سمیت حکمراں بی جے پی کے چوٹی کے رہنماؤں کے قریبی سمجھے جاتے ہیں۔

یوگی ادیتیہ کا اصل نام اجے موہن بشٹ ہے
یوگی ادیتیہ کا اصل نام اجے موہن بشٹ ہےتصویر: Samiratmaj Mishra/DW

یوگی ادیتیہ ناتھ کون ہیں؟

ادیتیہ ناتھ کی حکومت میں دائیں بازو کی ہندو سیاست کو کافی فروغ حاصل ہوا۔ اس دوران انہوں نے گائے کے ذبیحہ کے خلاف اور بین المذاہب شادیوں بالخصوص ہندو خواتین اور مسلمان مردوں کے درمیان شادیوں کی روک تھام کے لیے سخت اقدامات کیے۔

مخصوص قسم کا زعفرانی رنگ کا لباس پہننے والے یوگی ادیتیہ کا اصل نام اجے موہن بشٹ ہے۔ لیکن یوگی بننے یعنی دنیاوی آسائشوں سے کنارہ کشی اختیارکرنے کے بعد انہوں نے اپنا نام بدل کر یوگی ادیتیہ ناتھ رکھ لیا اور ستمبر2014 ء سے گورکھ ناتھ مندر کے ہیڈ پجاری ہیں۔

اصل دھارے کی سیاست میں شامل ہونے سے قبل انہوں نے ہندو یووا واہنی نامی ایک تنظیم شروع کی۔ گو کہ انہوں نے اسے ہندو مذہبی تنظیم قرار دیا تاہم یہ گائے کے تحفظ اور ''گھر واپسی‘‘ کے لیے کام کرتی ہے۔ گھر واپسی سے مراد اسلام، مسیحیت یا دیگر مذاہب کے ماننے والوں کو مذہب تبدیل کراکے ہندو بنانا ہے۔

اس تنظیم کا ایک اور مقصد مبینہ ''لو جہاد‘  کی روک تھام ہے۔ ہندو یووا واہنی یہ غلط فہمی پھیلانے میں بڑی حد تک کامیاب ہوگئی ہے کہ مسلمان مرد ہندو عورتوں کو لالچ یا دھوکہ دے کر ان کا مذہب تبدیل کراتے ہیں اور اس کا اصل مقصد ہندو اکثریتی ملک میں مسلمانوں کا غلبہ قائم کرنا ہے۔

دہلی کی جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں سیاسیات کی سابق پروفیسر سدھاپائی نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا،''ادیتیہ ناتھ کا امیج ایک مذہبی لیڈر کا ہے۔ انہوں نے اترپردیش کے مشرقی حصے میں اپنی جڑیں قائم کرلیں اور ایک سیاسی رہنما بن گئے۔‘‘  پائی کا تاہم کہنا ہے کہ  یوپی سے باہر بھی ان کے اثرات کے بارے میں شبہ پایا جاتا ہے۔

پائی اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہتی ہیں،'' چونکہ پچھلے پانچ سال کے اقتدار کے دوران ان کا ریکارڈ خراب رہا ہے اس لیے آر ایس ایس(بی جے پی کی مربی تنظیم) شاید انہیں وزیر اعظم کے امیدوار کے طور پر پیش نہ کرے۔ ایک لیڈر کے طورپر بالخصوص جنوبی بھارت میں ان کا کوئی خاص اثر نہیں ہے۔‘‘

اترپردیش میں بی جے پی کی اصل حریف سابق وزیر اعلیٰ اکھلیش یادو کی قیادت والی سماج وادی پارٹی ہے، جو حالیہ اسمبلی انتخابات میں متعدد مقامی جماعتوں کے ساتھ اتحاد کرنے میں کامیاب رہی ہے۔

اترپردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی ادیتیہ ناتھ دوسری مرتبہ اقتدار کے لیے مقابلہ کررہے ہیں
اترپردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی ادیتیہ ناتھ دوسری مرتبہ اقتدار کے لیے مقابلہ کررہے ہیںتصویر: Samiratmaj Mishra/DW

اقتدار میں ادیتیہ ناتھ کے پانچ برس

بی جے پی کے ساتھ کئی برسوں تک اچھے تعلقات نہیں رہنے کے باوجود مودی اور وزیر داخلہ امیت شاہ سمیت متعدد پارٹی رہنما ترقیاتی منصوبوں اور کورونا وائرس کی وبا سے نمٹنے کے حوالے سے یوگی کی تعریفیں کرتے رہے ہیں۔

ایک نیوز میگزین ' انڈیا ٹوڈے‘ نے سن 2020 میں اپنے 'موڈ آف دی نیشن‘ سروے میں یوگی ادیتیہ ناتھ کو بہترین وزیر اعلٰی بتایا تھا۔ تاہم اپوزیشن جماعتیں اسے تسلیم کرنے سے انکار کرتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس دعوے کی تائید میں کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ہے۔

سن 2020 میں بی جے پی حکومت کی جانب سے منظور کردہ متنازعہ زرعی قوانین کی وجہ سے بھی ادیتیہ ناتھ کے خلاف کسانوں کی ناراضگی کھل کر سامنے آگئی۔

سیاسی تجزیہ کار یونیورسٹی آف لندن سے وابستہ پروفیسر اروند کمار نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ حالانکہ زرعی قوانین یوگی ادیتیہ ناتھ کی انتظامیہ نے نہیں بلکہ مرکز کی مودی حکومت نے بنائے، لیکن کسان تین وجوہات کی بنا پر یوگی ادیتیہ ناتھ سے ناراض ہیں۔

اروند کمار کا کہنا تھا،''پہلی وجہ تو گائے کے ذبیحہ پر پابندی کی وجہ سے آوارہ پھرنے والی گایوں کا مسئلہ ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ گذشتہ چار برس کے دوران گنّے کی قیمت میں اضافہ نہیں کیا گیا اور تیسری وجہ اناجوں کی خریداری کے لیے مارکیٹ کا ناکافی انتظام ہے جبکہ بجلی کی شرحوں میں اضافے نے بھی کسانوں میں ریاستی حکومت کے خلاف غصہ بڑھا دیا ہے۔

 گذشتہ کئی ماہ کے دوران ادیتیہ ناتھ حکومت کے کئی وزراء پارٹی چھوڑ کر حریف سماج وادی پارٹی میں شامل ہوگئے، جو کہ قیادت سے ناراضگی کا اشارہ ہے۔

پروفیسر کمار کہتے ہیں کہ سینیئر وزراء کے پارٹی چھوڑنے سے یہ تاثر پیدا ہوا ہے کہ یوگی صرف اعلی ذات بالخصوص راجپوتوں کے مفادات کی حفاظت کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا ''سینیئر وزراء کے پارٹی چھوڑنے سے ادیتیہ ناتھ کا امیج ہندو لیڈر سے راجپوت لیڈر بن گیا، جو کہ ان کے لیے سیاسی لحاظ سے نقصان کا موجب ہوگا۔‘‘

بھارت کے اب تک چودہ وزرائے اعظم میں سے موجودہ وزیراعظم  مودی سمیت نو وزرائے اعظم کا تعلق یو پی سے ہے
بھارت کے اب تک چودہ وزرائے اعظم میں سے موجودہ وزیراعظم مودی سمیت نو وزرائے اعظم کا تعلق یو پی سے ہےتصویر: Altaf Qadri/AP Photo/picture alliance

کیا بھارتی سیکولرزم خطرے میں ہے؟

بہت سارے بھارتی شہری مسلمانوں کے خلاف یوگی ادیتیہ ناتھ کے موقف سے فکر مند ہیں۔ اترپردیش میں مسلمانوں کی تعداد تقریباً 20 فیصد ہے۔

پروفیسر کمار کا کہنا ہے کہ، ''وزیر اعلٰی کے طور پر یوگی کا دوبارہ اقتدار میں آنا بھارت میں سیکولرزم کے نظریہ کے لیے زبردست دھچکا ثابت ہوگا۔ انہوں نے ہمیشہ اقلیتوں کو نشانہ بناکر مقبولیت حاصل کی ہے...اس لیے ان کی کامیابی سے دیگر لیڈروں کو بھی ایسا کرنے کا حوصلہ ملے گا۔‘‘

ادیتیہ ناتھ نے اپنی پانچ سالہ مدت کار کے دوران الہٰ آباد اور مغل سرائے سمیت متعدد شہروں کے نام تبدیل کرکے پریاگ راج اور دین دیال اپادھیائے جیسے ہندونام رکھ دیے۔ انہوں نے ''لو جہاد‘‘ کے خلاف قانون بھی نافذ کیا۔ ان کا دعویٰ ہے کہ یہ ہندو خواتین کے حقوق کی حفاظت کے لیے کیا گیا ہے۔

بہرحال ادیتیہ ناتھ بھارت میں ہندوؤں کے ایک بڑے طبقے کے مقبول رہنما ہیں اور کامیابی حاصل کرسکتے ہیں۔

سدھا پائی کہتی ہیں، ''آئندہ کیا ہوگا اس کا بہت کچھ انحصار ان کی کامیابی کی نوعیت پر ہوگا۔ اگر بی جے پی اپنے بل بوتے پر حکومت بنانے میں کامیاب ہوجاتی ہے تو وہ مزید سخت پالیسیاں نافذ کریں گے۔ اور ناقدین اور اپوزیشن کو کچلنے کی کوشش کریں گے۔‘‘

تنیکا گوڈبولے /  ج ا / ک م

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں