1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت: کیا کھڑگے کانگریس پارٹی کو منجدھار سے نکال سکیں گے؟

جاوید اختر، نئی دہلی
20 اکتوبر 2022

بھارت کی قدیم ترین سیاسی جماعت کانگریس کو گوکہ نیا صدر مل گیا ہے لیکن یہ سوال برقرار ہے کہ گاندھی نہرو خاندان سے تعلق نہ رکھنے والے ملکا ارجن کھڑگے پارٹی کو منجدھار سے نکالنے میں کتنا کامیاب ہو سکیں گے۔

https://p.dw.com/p/4IS6D
کانگریس پارٹی کے صدر ملکا ارجن کھڑگے
کانگریس پارٹی کے صدر ملکا ارجن کھڑگےتصویر: Imago Images/Hindustan Times

پارٹی کے سینیئر رہنما اور سابق مرکزی وزیر 80 سالہ ملکا ارجن کھڑگے سابق وزیر اور سینیئر رہنما ششی تھرور کو 7897 کے مقابلے 1072 ووٹوں سے ہرا کر آزاد بھارت میں کانگریس پارٹی کے 19ویں صدر بن گئے۔ برصغیر  کی سب سے پرانی سیاسی جماعت انڈین نیشنل کانگریس کی صدارت کی کرسی تقریبا ً چوتھائی صدی بعد ایک ایسے شخص کے پاس گئی ہے جس کا تعلق گاندھی نہرو خاندان سے نہیں ہے۔ وہ انتہائی پسماندہ سمجھے جانے والے دلت طبقے سے تعلق رکھنے والے پہلے صدر ہیں۔

کانگریس پارٹی کے صدر کے عہدے پر فائز ہونے والے بیشتر افراد یوں تو گاندھی نہرو خاندان سے تعلق نہیں رکھتے تھے تاہم پارٹی پر خاندانی سیاست کے الزامات عائد ہوتے رہے ہیں۔ حالانکہ صرف پانچ افراد، جواہر لال نہرو، اندراگاندھی، راجیو گاندھی، سونیا گاندھی  اور راہول گاندھی  ہی پارٹی کے صدر رہے جس نے آزادی کے بعد 75 برس میں تقریباً50 برس تک ملک پر حکومت کی ہے۔

کانگريس کے سينئر رہنما سندھیا، اب بی جے پی کا حصہ

سونیا گاندھی اور راہول گاندھی نے پارٹی صدر کے انتخاب سے خود کو پہلے ہی الگ کرلیا تھا اور ملکا ارجن کھڑگے کے انتخاب کے بعد کانگریس یہ بتانے کی کوشش کر رہی ہے کہ پارٹی میں خاندانی سیاست نہیں بلکہ پوری طرح جمہوریت ہے۔

'کانگریس میں جمہوریت ہے'

کانگریس پارٹی کے سینیئر رہنما اور سابق رکن پارلیمان میم افضل نے ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے کہا "کانگریس پر نہرو گاندھی فیملی کے حوالے سے بالخصوص بی جے پی جس طرح کا گمراہ کن ماحول بنانے کی کوشش کر رہی تھی کھڑگے صاحب کے انتخاب سے اس کی نفی ہوگئی اور یہ ثابت ہوگیا کہ اس سے زیادہ جمہوریت پسند کوئی پارٹی آج کی تاریخ میں نہیں ہے۔"

میم افضل کا کہنا تھا کہ "اس سے حکمراں جماعت کو بھی سبق لینا چاہئے جہاں صرف ایک آدمی (مودی) کے  اشارے پر سب کچھ ہوجاتا ہے۔"  ان کا اشارہ بی جے پی صدر جے پی نڈا کی جانب تھا جنہیں حال ہی میں دوسری مدت کے لیے نامزد کیا گیا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ پارٹی کے اندر جس طرح جمہوری انداز میں انتخاب ہوا ہے اور ششی تھرور نے بھی جس فراخ دلی سے نتائج کو قبول کیا ہے اس سے نہ صرف پارٹی پر بلکہ مجموعی طور پر عوام پر بھی اچھا اثر پڑے گا۔

طاقت کی کنجی بہر حال گاندھی خاندان کے پاس ہی رہے گی

کانگریس پارٹی گوکہ یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہی ہے کہ پارٹی پر خاندانی اقتدار کا الزام غلط ہے تاہم سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ماضی کے واقعات اس بات کو ثابت کرتے ہیں کہ کانگریس پارٹی میں اقتدار کا اصل محور نہرو گاندھی خاندان ہی ہے اور آئندہ بھی رہے گا۔

سیاسی تجزیہ نگار اور کانگریس پارٹی کی تاریخ پر کئی کتابوں کے مصنف رشید قدوائی کا کہنا تھا کہ یہ تو وقت ہی بتائے گا کہ کانگریس خاندانی سیاست کے الزام کو غلط ثابت کرنے میں کتنا کامیاب ہوتی ہے۔

 قدوائی نے ڈی ڈبلیو اردو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، "کھڑگے کوئی سیاسی قیادت کی نمائندگی نہیں کرتے۔ کانگریس پر نہرو گاندھی فیملی کا دبدبہ ہے، وہی سیاسی قیادت کی نمائندگی کرتے ہیں اور آئندہ بھی ایسا ہی رہے گا۔"  انہوں نے اسے ایک مثال سے واضح کرتے ہوئے کہا،"نریندر مودی ایک دن کے لیے بھی بی جے پی کے صدر نہیں رہے لیکن وہ سیاسی قیادت کی نمائندگی کرتے ہیں اور انہیں کا دبدبہ چلتا ہے۔"

گاندھی خاندان کی پارٹی استعفوں کی پیشکش مسترد

رشید قدوائی کا کہنا تھا کہ کھڑگے کو اس لیے لایا گیا ہے تاکہ پارٹی میں تسلسل برقرار رہے اور چونکہ یہ شکایت تھی کہ سونیا اور راہول گاندھی کارکنوں کو ملاقات کے لیے وقت نہیں دے پاتے ہیں لہذا کھڑگے کے صدر بننے سے یہ شکایت دور ہو سکے گی۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ کانگریس پارٹی میں اقتدار کا اصل محور نہرو گاندھی خاندان ہی ہے اور آئندہ بھی رہے گا
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ کانگریس پارٹی میں اقتدار کا اصل محور نہرو گاندھی خاندان ہی ہے اور آئندہ بھی رہے گاتصویر: picture-alliance/dpa

کھڑگے کے لیے امتحان

گوکہ کھڑگے کے صدر منتخب ہونے پر راہول گاندھی، جو 'بھارت جوڑو' مہم پر جنوب کے دورے پر ہیں، نے ٹویٹ کرکے مبارک باد دی اور سونیا گاندھی مبارک باد دینے کے لیے، غیر معمولی طورپر، خود ان کے گھر پر گئیں تاہم کھڑگے کو اپنی کامیابی کے لیے نہرو گاندھی خاندان سے تال میل بٹھانا پڑے گا۔

سیاسی تجزیہ نگار ارملیش نے ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے کہا"سب کچھ اس پر منحصر کرے گا کہ دونوں کے درمیان کیسا تال میل رہتا ہے کیونکہ ماضی میں جب سیتارام کیسری صدر بنے تھے تویہ کہا جاتا ہے کہ گاندھی نہرو خاندان کا ان کے ساتھ اچھا سلوک نہیں رہا۔"

ارملیش نے تاہم امید ظاہر کی کہ کانگریس ماضی کی اپنی غلطیوں سے سبق لے گی۔

رشید قدوائی کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ کھڑگے کی کامیابی کا امتحان ہماچل پردیش، گجرات اور کرناٹک میں آئندہ اسمبلی انتخابات ہوں گے کیونکہ کسی بھی رہنما کی کامیابی کا پیمانہ انتخابی کامیابی کی بنیاد پر طے کیا جاتا ہے۔ اگر پارٹی ان انتخابات میں کامیاب نہیں ہوتی ہے تو کھڑگے کی قیادت پر بہر حال سوالات اٹھائے جائیں گے۔

کانگریس پارٹی کے ایک رہنما کا کہنا ہے کہ اس کی مضبوطی کا عمل تیزی سے دوبارہ شروع ہوا ہے
کانگریس پارٹی کے ایک رہنما کا کہنا ہے کہ اس کی مضبوطی کا عمل تیزی سے دوبارہ شروع ہوا ہے تصویر: DW/R. Sharma

پارٹی پرامید ہے

کانگریس پارٹی نے کھڑگے کے صدر منتخب ہونے پر مستقبل میں بہتر ی کی امید ظاہر کی ہے۔ جو ملک پر نصف صدی تک حکومت کرنے کے باوجود سن  2019 کے عا م انتخابات میں 543 رکنی پارلیمان میں صرف 53 سیٹوں تک محدود ہو کر رہ گئی۔ جبکہ بی جے پی نے 303 سیٹیں جیت لی تھیں۔

کانگریس کے سابق رکن پارلیمان میم افضل کا کہنا تھا، "ان(کھڑگے) سے ہمیں کافی امیدیں ہیں، وہ ایک تجربہ کار آدمی ہے، چونکہ وہ بھاری اکثریت سے پارٹی کے صدر منتخب ہوئے ہیں اس لیے اس کا سیدھا اثر پارٹی پر پڑے گا۔"

انہوں نے مزید کہا کہ حالانکہ کانگریس نے کئی مرتبہ کافی برے وقت دیکھے ہیں لیکن اس کی جڑیں عوام کے اندر ہیں اور اس کی مضبوطی کا عمل تیزی سے دوبارہ شروع ہوا ہے۔ راہول گاندھی کے 'بھارت جوڑو' یاترا کا اثر بھی کافی دکھائی دے رہا ہے۔ یہ سب مل کر یقینا کانگریس کو فائدہ پہنچائیں گے۔

کیا سچن پائلٹ اور کانگریس میں اب بھی کوئی سمجھوتہ ممکن ہے؟

کانگریس کے سینیئر رہنما اور سابق وزیر خارجہ سلمان خورشید کا کہنا تھا کہ "جولوگ کانگریس پارٹی کے نظریات اور کلچر سے واقف نہیں ہیں انہیں یہ دیکھنے کے لیے انتظار کرنا چاہئے کہ چیزیں کس طرح بہتر انداز میں منظم ہوتی ہیں۔"