1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت میں صحافیوں کی پریشانی،کورونا سے جان بچائیں یا ملازمت

جاوید اختر، نئی دہلی
4 ستمبر 2020

بھارت میں صحافی کورونا کا مسلسل شکا ر ہورہے ہیں لیکن خطرہ صرف وائرس تک محدود نہیں ہے بلکہ وہ پولیس کے ڈنڈوں، مقدمات اور ملازمت سے ہاتھ دھولینے کے خوف سے بھی پریشان ہیں۔

https://p.dw.com/p/3hzeM
Indien Zeitungen
تصویر: Getty Images

بھارت میں کورونا سے متاثرین کا گراف مسلسل اوپر جارہا ہے۔ متاثرین کی مجموعی تعداد کے لحاظ سے یہ دنیا میں تیسرے نمبر پر ہے لیکن ہر روز سب سے زیادہ معاملے بھارت میں ہی سامنے آرہے ہیں۔ متاثرین کی تعداد 40 لاکھ کے قریب پہنچ چکی ہے جبکہ اب تک 68 ہزار سے زیادہ افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔

اس دوران صحافیوں کے بھی کورونا کی زد میں آکر ہلاک ہونے کا سلسلہ جاری ہے۔ اب تک تقریباً 20 صحافی کورونا کا شکار ہوکر موت کی منہ میں جاچکے ہیں۔ گزشتہ چار دنوں میں کم از کم تین صحافیوں کی موت ہوگئی۔ تازہ واقعہ پونے کے صحافی 42 سالہ پانڈورنگ رائےکر کا ہے۔ پانڈورنگ کے اہل خانہ کا الزام ہے کہ ہسپتال نے 40 ہزار روپے پیشگی جمع کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ اس کی وجہ سے ان کے علاج میں تاخیر ہوئی اوران کی موت ہوگئی۔ مہاراشٹر حکومت نے صحافی کی موت کی تفتیش کا حکم دیا ہے۔

اس سے قبل منگل کے روز انڈیا ٹوڈے گروپ کے صحافی نیلانشو شکلا کی اور بدھ کے روز خبر رساں ایجنسی پی ٹی آئی کے صحافی امرت موہن کی کورونا سے موت ہوگئی۔ گزشتہ ہفتے دہلی سے شائع ہونے والے اردو روزنامہ راشٹریہ سہارا کے صحافی عبدالقادر شمس کا کورونا کی وجہ سے انتقال ہوگیا تھا۔  ان کے علاوہ متعدد صحافیوں کے کورونا پوزیٹیوہونے کی خبریں آرہی ہیں۔

نیلانشو شکلا
نیلانشو شکلاتصویر: Privat

صحافیوں کے لیے چیلنج

کورونا وائرس کی وبا نے صحافت کا طریقہ بدل دیا ہے۔ سوشل ڈسٹنسنگ کا خیال رکھتے ہوئے رپورٹنگ کرنا آسان نہیں ہے۔ نیوز چینل این ڈی ٹی وی سے وابستہ صحافی رویش رنجن شکلا کہتے ہیں کہ کورونا کے انفیکشن سے بچنا ہمیشہ آسان نہیں ہوتا۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا ”سوشل ڈسٹینسنگ قائم رکھنا اس لیے مشکل ہے کیوں کہ یہ ایک طرفہ کوشش سے نہیں ہوسکتی۔ مثال کے طورپر مہاجر مزدوروں کے مسئلے کو ہی لے لیجیے۔ سڑک پر بھٹک رہے مزدوروں کو انفیکشن کا خوف نہیں تھا بلکہ انہیں اپنے مسائل کو بیان کرنے کی تڑپ زیادہ تھی۔ ایسے میں تمام احتیاط کے باوجود فزیکل ڈسٹینسنگ کا ضابطہ ٹوٹ جاتا تھا۔"  شکلا کہتے ہیں کہ اس وجہ سے گزشتہ چار پانچ مہینوں کے دوران مجھے دو مرتبہ کووڈ ٹیسٹ کرانا پڑا۔

ایک بین الاقوامی نشریاتی ادارے کے لیے کام کرنے والی صحافی ریتول جوشی بھی اس سے متفق ہیں۔ وہ بتاتی ہیں ”کیمرہ آن ہوتے ہی ہر طرف سے مزدور گھیر لیتے تھے۔ ان کی کہانیاں دردناک ہوتی تھیں۔ کچھ لوگ بات کرتے کرتے رو پڑتے تھے۔ ایسے میں یہ کہنا کہ بھیا تین فٹ کی دوری رکھیے، کم سے کم میرے لیے تو ممکن نہیں تھا۔" ریتول بتاتی ہیں کہ دہلی سے ملحق نوئیڈا کی جس کچی بستی میں وہ گئیں وہاں کسی کے منہ پر ماسک نہیں تھا۔ لیکن آدھے سے زیادہ لوگوں کے جسم پر پورے کپڑے بھی نہیں تھے۔ ایسے میں ان سے ماسک، صابن اور سینیٹائزر کی بات کرنا بھدا مذاق جیسا تھا۔

ملک کے کئی حصوں میں جاکر کورونا کی رپورٹنگ کرنے والے انڈین ایکسپریس کے صحافی دیپانکر گھوش کہتے ہیں ”دیہی علاقوں میں سوشل ڈیسٹینسنگ اور ماسک پہننے جیسے ضابطوں پر عمل کرنا بہت مشکل تھا۔ وہاں خبر حاصل کرنے کے لیے آپ کو مقامی لوگوں کی طرح دکھائی دینا اور سلوک کرنا پڑتا ہے۔ اگر دس لوگوں نے ماسک نہیں لگایا ہے تو ان کے درمیان آپ ماسک لگا کر بالکل عجوبہ دکھائی دیں گے۔"  گھوش کو کورونا پر رپورٹنگ کے لیے باوقار پریم بھاٹیا ایوارڈ ملا ہے۔

نوکری سے ہاتھ دھونے کا خوف

صحافیوں کے لیے کورونا کا خطرہ تو اپنی جگہ ہے ہی لیکن بہت سارے صحافیوں کے سامنے ملازمت سے محروم ہوجانے کا خطرہ اس سے بھی کہیں زیادہ بڑا ہے۔  تقریباً تمام ٹی وی چینلوں اور اخبارات نے تنخواہوں میں کٹوتی کردی ہے اور بعض اداروں نے بڑی تعداد میں اسٹاف کو بھی ملازمت سے ہٹا دیا ہے۔

بعض نیوز چینلوں نے اپنی ٹی آر پی ریٹنگ کے لیے صحافیوں کی جان خطرے میں ڈال دی
بعض نیوز چینلوں نے اپنی ٹی آر پی ریٹنگ کے لیے صحافیوں کی جان خطرے میں ڈال دیتصویر: picture-alliance/AP/C. Anand

 ہندی روزنامہ 'ہندوستان‘ سے گزشتہ دو عشرے سے زیادہ عرصے سے وابستہ صحافی سمیع احمد نے ڈی ڈبلیو اردو کو بتایا کہ ”آج (جمعہ) سے میری ملازمت ختم ہوگئی ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ اب میں کہاں جاوں اور مجھے کون نوکری دے گا۔“  سمیع احمد ’ہندوستان‘ کے گیا (بہار) سے شائع ہونے والے ایڈیشن سے وابستہ تھے۔

ٹی وی جرنلسٹس ایسوسی ایشن کے صدر ونود جگدالے کہتے ہیں ”ہر صحافی خواہ وہ بیمار ہو، چاہے اسے کورونا ہوگیا ہو یا کسی اور تکلیف میں مبتلا ہو لیکن پھر بھی وہ کام کررہا ہے کیوں کہ اسے یہ خوف ستاتا رہتا ہے کہ اگر وہ کام پر نہیں جائے گا تو ادارہ کسی دوسرے کو اس کی جگہ پر رکھ لے گا۔ ہر ادارے میں یہی ہورہا ہے۔

لیکن بعض اداروں بالخصوص غیر ملکی نشریاتی اداروں سے وابستہ صحافیوں پر اس طرح کا دباو نہیں ہے۔ ریتول جوشی کہتی ہیں کہ انہوں نے کورونا کے حوالے سے بہت ساری رپورٹنگ کی لیکن اس کے لیے ان پر ادارے کی طرف سے کوئی دباو نہیں تھا۔ ان کا کہنا تھا”میرے آرگنائزیشن نے مجھے صاف کہا کہ اپنی حفاظت سب سے اہم ہے اور میں کوئی خطرہ مول نہ لوں۔" 

ایک دیگر بین الاقوامی نشریاتی ادارے سے وابستہ صحافی پرینکا دوبے کا کہنا تھا ”رپورٹنگ کے دوران انفیکشن سے بچنے کی کوئی گارنٹی تو نہیں ہوتی لیکن ان کے ادارے نے اس سلسلے میں سخت پروٹوکول بنایا ہے اور ادارے نے ان کی حفاظت کے لیے تمام ضروری سامان وافر تعداد میں انہیں فراہم کیے تھے۔"

صحافیوں کے لیے کورونا سے زیادہ بڑا  کا خطرہ اپنی ملازمت سے محروم ہوجانے کا ہے۔
صحافیوں کے لیے کورونا سے زیادہ بڑا کا خطرہ اپنی ملازمت سے محروم ہوجانے کا ہے۔تصویر: DW/P. Samanta

پولیس کا ڈنڈا

کورونا وائرس کے دوران پولیس کے ذریعہ صحافیوں پر زیادتی کے بھی متعدد معاملات سامنے آئے۔ لاک ڈاون کی وجہ سے متاثرین کو ہونے والی پریشانیوں کی خبریں شائع یا نشر کرنے پر مختلف مقامات پر صحافیوں کو پولیس کی زیادتی کا نشانہ بننا پڑا۔  انگلش ویب سائٹ اسکرول کی ایڈیٹر پر بنارس میں وزیر اعظم مودی کے گود لیے گئے گاوں میں 'بھکمری سے موت‘ کی ’جھوٹی‘خبر شائع کرنے کے الزام میں معاملہ درج کیا گیا۔ ہماچل پردیش میں بھی کورونا لاک ڈاون کے دوران صحافیوں کے ساتھ زیادتی اور ڈرانے دھمکانے کی خبریں آئیں۔

دوسری طرف بعض میڈیا اداروں کی جانب سے کورونا گائیڈ لائنس کی صریح خلاف ورزی کے واقعات بھی سامنے آئے۔ بعض اداروں کے مالکان نے صحافیوں کو دفتر آکر کام کرنے کے لیے مجبور کیا جس کی وجہ سے ایک ہی ادارہ کے 40 افراد کورونا پازیٹیو پائے گئے۔ اس ادارے سے وابستہ ایک صحافی نے اپنا نام ظاہر نہیں کرنے کی شرط پر بتایا کہ ”ان کے ایڈیٹر اپنی ٹی آر پی ریٹنگ کا حوالہ دے کر ملازمین کو ہر حال میں دفتر آنے کی دھمکی دے رہے تھے۔"

جاوید اختر/ ہردئیش جوشی، نئی دہلی

’آپ تک سچ پہنچانےکے ليے ہم ہر خطرہ مول ليں گے‘

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں