1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت میں جہیز کی روایت، ہر گھنٹے ایک عورت ہلاک

مقبول ملک10 ستمبر 2013

خواتین کے حقوق کے لیے فعال کارکنوں نے جرائم سے متعلق تازہ ترین قومی اعداد و شمار کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا ہے کہ بھارت میں جہیز کے مسئلے کی وجہ سے کئی طرح کے جرائم کا ارتکاب ہر گھنٹے ایک عورت کی جان لے لیتا ہے۔

https://p.dw.com/p/19cAt
تصویر: AP

نئی دہلی سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق اس کا ایک سبب یہ ہے کہ دنیا میں آبادی کے لحاظ سے دوسرے سب سے بڑے ملک میں مسلسل اقتصادی ترقی کے نتیجے میں دلہنوں کو شادی کے وقت بہت زیادہ جہیز دینے کے مطالبات وسیع تر ہوتے جا رہے ہیں۔

خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس نے بدھ چار ستمبر کو نئی دہلی سے اپنی رپورٹوں میں لکھا کہ نیشنل کرائمز ریکارڈ بیورو کے مطابق 2012ء میں پورے ملک میں 8233 خواتین صرف اس لیے موت کی بھینٹ چڑھ گئیں کہ ان خواتین کے اہل خانہ کی طرف سے شادی کے وقت دلہا یا اس کے خاندان کو ’کافی جہیز‘ کا نہ دیا جانا کئی طرح کے تنازعات کی وجہ بن گیا تھا۔

بھارت میں جرائم کا ریکارڈ رکھنے والے قومی دفتر کی طرف سے ابھی حال ہی میں جاری کیے گئے گزشتہ برس کے اعداد و شمار نے ثابت کر دیا ہے کہ ’دنیا کی اس سب سے بڑی جمہوریت‘ میں جہیز کے تنازعے کی وجہ سے رونما ہونے والے جان لیوا جرائم میں ملزمان کو سزائیں سنائے جانے کی شرح ابھی بھی انتہائی کم ہے، جو محض 32 فیصد بنتی ہے۔

Indien Braut Frau Hochzeit
تصویر: AP

مروجہ قوانین کے تحت شادی کے وقت جہیز لینا اور دینا دونوں جرم ہیں لیکن بھارتی معاشرے میں صدیوں پرانی اس روایت کا عملی خاتمہ ابھی تک ممکن نہیں ہو سکا ہے۔ جہیز کی ادائیگی کے مطالبات صرف لڑکیوں کی شادی کے وقت ہی نہیں کیے جاتے بلکہ یہ سلسلہ شادی کے کئی سال بعد تک بھی جاری رہتا ہے۔

ایسوسی ایٹڈ پریس نے لکھا ہے کہ اسی روایت کے نتیجے میں ہر سال بھارت میں ہزاروں جوان عورتوں کو ان کے سسرال کی طرف سے اس لیے مٹی کا تیل چھڑک کر آگ لگا دی جاتی ہے کہ دلہا اور اس کے گھر والے لڑکی کے خاندان کی طرف سے دیے جانے والے جہیز سے مطمئن نہیں ہوتے۔

تحفظ حقوق نسواں کے لیے سرگرم کارکنوں اور پولیس کے مطابق جہیز سے متعلق تنازعات کے نتیجے میں جرائم کے ارتکاب میں کمی کے بجائے اضافہ اس لیے ہوا ہے کہ جہیز کی روک تھام کے موجودہ قوانین میں بہت سے چور دروازے موجود ہیں، ملزمان کے خلاف قانونی چارہ جوئی کا عمل بہت سست رفتار ہے اور مجرموں کو سزائیں سنائے جانے کی شرح بھی بہت کم ہے۔

عورتوں کے حقوق کے لیے جدوجہد کرنے والی رنجنا کماری نامی ایک کارکن کہتی ہیں، ’’بہت زیادہ جہیز کی ادائیگی کے مطالبات کی ایک بڑی وجہ اقتصادی ترقی بھی ہے۔‘‘ انہوں نے ان مطالبات کو ملک میں ’لالچ کے کلچر‘ کا نتیجہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ بھارتی معاشرے میں نوجوان نسل بڑی شدت سے اپنے لیے ان سب غیر ملکی مصنوعات کی خواہش مند ہے، جنہیں وہ مالی طور پر خود نہیں خرید سکتی۔ رنجنا کماری نے اس سماجی رویے کو شادی کے رشتے کی کمرشلائزیشن کا نام دیا۔

نئی دہلی کی ایک سینئر پولیس اہلکار سُمن نالوا کا خواتین کے خلاف جرائم سے اکثر واسطہ پڑتا ہے۔ ان کے مطابق معاشرے کے سبھی طبقات کو جہیز کی ادائیگی اور اس وجہ سے پیدا ہونے والے مسائل کا سامنا ہے۔ سُمن نالوا نے کہا، ’’اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ بھی جہیز سے انکار نہیں کرتے۔‘‘

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید