1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’بھارت ميں انسانی حقوق کی صورتحال ميں بہتری کی ضرورت ہے‘

24 اکتوبر 2018

جرمن کی انسانی حقوق کی کمشنر نے بھارت کے اپنے سرکاری دورے کے موقع پر اِس ملک ميں انسانی حقوق، عورتوں کے حقوق اور آزادی اظہار رائے کی صورتحال پر اپنے تحفظات کا اظہار کيا ہے۔

https://p.dw.com/p/3751x
Deutschland Bärbel Kofler
تصویر: picture alliance/dpa/B. v. Jutrczenka

جرمنی کی انسانی حقوق کی کمشنر بيربل کوفلر نے ڈی ڈبليو کو ديے اپنے ايک خصوصی انٹرويو ميں کہا ہے کہ جنوبی ايشيا ميں سول سوسائٹی اور آزادی اظہار رائے پر قدغنيں لگائی جا رہی ہيں اور يہ صورتحال باعث تشويش ہے۔ بيربل نے بھارت ميں انسانی حقوق کی صورتحال پر اپنے خيالات کا اظہار کرتے ہوئے بتايا کہ نئی دہلی حکومت اس ضمن ميں صورتحال کو بہتر بنانے کی کوششوں ميں ہے البتہ موجودہ صورت حال کو ’بہترين‘ نہيں کہا جا سکتا۔ ان کے بقول اقليتوں اور عورتوں کے حقوق کی صورتحال پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ جرمنی کی انسانی حقوق کی کمشنر کے مطابق بالخصوص عورتوں کے ليے سکيورٹی اور مساوات ميں بہتری لانے کے ليے کافی کام درکار ہے۔

بيربل کوفلر وفاقی جرمن حکومت ميں انسانی حقوق اور انسانی بنيادوں پر امداد سے متعلق محکموں کی کمشنر ہيں۔ انہوں نے يہ انٹرويو بھارت کے ايک سرکاری دورے کے موقع پر ديا۔

اپنے انٹرويو ميں جرمن عہديدار نے مزيد کہا کہ غريب لوگوں کو ان کے حقوق کے بارے ميں آگاہ کرنے اور پھر اِن حقوق کی فراہمی ممکن بنانے کے ليے بھی اقدامات درکار ہوتے ہيں۔ بيربل کوفلر کے بقول يہ بھارت کا ايک انتہائی اہم مسئلہ ہے۔ تاہم انہوں نے يہ بھی کہا کہ بھارتی عدالت عظمیٰ کے چند مثبت فیصلوں کے سبب اس ضمن ميں بہتری کی صورت پیدا ہوئی ہے۔

بھارتی فلم انڈسٹری کی خواتین کی شنوائی ہو سکی گی؟

بھارت ميں ناقدين اور کے خلاف مقدمات اور کارروائی کے حوالے سے جب کوفلر سے پوچھا گيا، تو ان کا کہنا تھا کہ وہ اس بارے ميں گہری تشويش کا شکار ہيں کہ چند ممالک ميں ناقدين و سول سوسائٹی کے ارکان کو حراست ميں ليا جا رہا ہے يا پھر اور زيادہ سخت اقدامات کيے جا رہے ہيں۔ انہوں نے يہ بھی کہا کہ آزادی اظہار رائے اور تنقيد کے ليے دائرہ کار دنيا بھر ميں محدود ہوتا جا رہا ہے۔ جرمنی کی انسانی حقوق کی کمشنر  نے کہا، ’’يہ کمزوری کی علامت ہے کہ جب اکثريت اپنے سے مختلف نظريات کو سننے اور تسليم کرنے سے قاصر دکھائی دے۔‘‘

بھارت ميں ہم جنس پرستی کے خلاف قانون کو پچھلے دنوں سپريم کورٹ کے تاريخی فيصلے ميں تبديل کر ديا گيا اور ايسے افعال جرائم کے زمرے ميں نہيں آتے۔ تاہم اب بھی جائيداد کے بٹوارے، سول يونين اور دوسرے امتیازی معاملات پر قانون سازی درکار ہے، جس پر کوفلر کا کہنا تھا کہ يہ بھارتی حکومت و پارليمان کی ذمہ داری ہے۔

جرمنی کی انسانی حقوق کی کمشنر نے بھارت ميں عورتوں کے خلاف پرتشدد جرائم کے معاملے پر بھی گہری تشويش کا اظہار کيا۔ ان کے بقول اس صورتحال ميں بہتری صرف اور صرف قوانين کی مدد سے نہيں آ سکتی بلکہ اس بارے ميں سماجی سطح پر بات ہونی چاہيے اور آگہی ضروری ہے۔ ان کے مطابق بنيادی مسئلہ سوچ اور ذہنيت کا ہے، جسے تعليم، قانونی سازی اور ديگر طريقوں سے بدلنا پڑے گا۔

بھارت میں کیا اب ہم جنس پرستوں کی زندگی آسان ہو گی؟

ع س / ع ح (مرلی کرشنن)