1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت میں اب مہندی پر تنازعہ

جاوید اختر، نئی دہلی
13 اگست 2021

شدت پسند ہندو تنظیم کرانتی سینا نے ہندو عورتوں سے کہا ہے کہ وہ مسلم نوجوانوں سے مہندی نہ لگوائیں۔ اس دوران اس تنظیم کے کارکنوں نے ہنگامہ آرائی کی بھی کوشش کی۔ اترپردیش پولیس نے گیارہ افراد کے خلاف کیس درج کر لیا ہے۔

https://p.dw.com/p/3ywJ4
Bildergalerie Religiöse Feste in Bangladesch
تصویر: FARJANA K. GODHULY/AFP/Getty Images

بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی حکومت والی ریاست اترپردیش میں فرقہ وارانہ لحاظ سے حساس ضلع مظفر نگر میں گزشتہ دنوں ایک شدت پسند ہندو تنظیم کرانتی سینا کے  کارکنوں نے مختلف بازاروں میں مارچ کیا اور دکانداروں کو حکم دیا کہ ہندو خواتین کو مہندی لگانے کے لیے اپنے یہاں کسی مسلمان کو ملازمت پر نہ رکھیں اور اگر ایسا کوئی مسلمان ہو تو اسے فوراً نکال دیں۔

کرانتی سینا کے جنرل سکریٹری منوج سینی کا کہنا تھا،”دراصل یہ مسلم نوجوان مہندی لگانے کے آڑ میں ہندو لڑکیوں کو بہلا پھسلا کر محبت کے دام میں پھنسا لیتے ہیں۔ یہ دراصل 'لو جہاد‘ کو فروغ دے رہے ہیں۔" انہوں نے ہندو لڑکیوں اور عورتوں کو بھی مشورہ دیا کہ وہ کسی مسلمان سے مہندی نہ لگوائیں۔

معاملہ کیا تھا؟

یہ واقعہ اس وقت منظر عام پر آیا جب علی شان جعفری نامی ایک مقامی صحافی نے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر ایک ویڈیو اپ لوڈ کی، جس میں دیکھا جاسکتا ہے کہ کچھ لوگ مظفر نگر کی مرکزی مارکیٹ میں دکانوں کی 'چیکنگ‘ کر رہے ہیں۔

کرانتی سینا سے وابستہ یہ لوگ دکانداروں سے کہہ رہے ہیں کہ وہ اپنے یہاں کسی مسلمان کو نہ تو مہندی لگانے کے لیے رکھیں اور نہ ہی ہیئر ڈریسر کے طور پر۔

'بھارتی جمہوریت کا گلا گھونٹا جا رہا ہے' راہول گاندھی

ویڈیو میں یہ بھی دیکھا جاسکتا ہے کہ ایک دکاندار ان ہندو کارکنوں سے پوچھ رہا ہے، ”ہم کسی کو مذہب کی بنیاد پر ملازمت پر کیسے رکھ سکتے ہیں؟"

Indien - Hindu Nationalismus
تصویر: picture-alliance/AP Photo/B. Armangue

مسلمانوں کے خلاف زیادتی کا سلسلہ جاری

حالیہ عرصے میں اتر پردیش سمیت ملک کے مختلف حصوں میں مسلمانوں کے خلاف زیادتی کے متعدد واقعات سامنے آچکے ہیں۔

مظفر نگر کا واقعہ سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد مقامی پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے 51 افراد کے خلاف کیس درج کر لیا۔ ان میں گیارہ نامزد اور چالیس نامعلوم افراد ہیں۔

مظفر نگر (شہر) کے پولیس سپرنٹنڈنٹ (ایس پی) ارپِت وجیہ ورگیہ نے کہا کہ پولیس بازاروں میں مسلسل گشت کر رہی ہے،''امن اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو متاثر کرنے والوں کے خلاف ضروری کارروائی کی جائے گی۔‘‘

ایس پی وجیہ ورگیہ نے بتایا،”ایک مہندی اسٹال کے مالک پرکاش چندرا نے شکایت درج کرائی تھی کہ اس نے ہندوؤں کے تہوار تیج پر مہندی لگانے کا ایک اسٹال لگایا تھا۔ ایک گروپ ان کی دکان پر آیا اور پوچھا کہ وہ یہاں کیا کر رہے ہیں چندرا نے انہیں بتایا کہ تیج کا تہوار آنے والا ہے اور اس موقع پر عورتیں مہندی لگواتی ہیں۔ اس پر وہ لوگ آپے سے باہر ہو گئے۔ انہوں نے چندرا کی تمام چیزیں پھینک دیں، اسٹال کو توڑ دیا اور کہا کہ مہندی لگانے کا کوئی اسٹال نہیں لگایا جائے گا۔" 

جو ہندو، مسلمانوں کو بھارتی نہ سمجھے وہ ہندو نہیں، آر ایس ایس سربراہ

پرکاش چندرا نے پولیس میں درج اپنی شکایت میں مزید کہا،”جب میں وہاں سے جانے لگا تو انہوں نے مجھے دھمکی دی کہ اگر ان لوگوں کی اجازت کے بغیر اسٹال لگایا تو وہ جان سے مار ڈالیں گے۔ ان لوگوں نے مجھے گالیاں بھی دیں اور دھکے بھی دیے۔"

گوکہ اس واقعے کو تین دن گزر چکے ہیں اور پولیس نے شکایت بھی درج کرلی ہے تاہم ابھی تک کسی کی گرفتاری عمل میں نہیں آئی ہے۔ ایس پی وجے ورگیہ کا کہنا تھا، ”انکوائری ہو رہی ہے اور اس کی بنیاد پر کارروائی کی جائے گی۔"

یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے

اترپردیش کے علاوہ ملک کے دیگر حصوں میں بھی اس طرح کے واقعات پر اکثر کوئی کارروائی نہیں ہوتی ہے۔

گزشتہ دنوں کانپور کا ایک واقعہ بھی سوشل میڈیا پر وائرل ہو گیا ہے جس میں ایک مسلم رکشہ ڈرائیور کو بجرنگ دل سے تعلق رکھنے والے بعض شدت پسند ہندو پیٹ رہے ہیں اور اسے 'جے شری رام‘ کے نعرے لگانے کے لیے مجبور کر رہے ہیں۔ اس کی پانچ سالہ بچی بھی ساتھ میں ہے جو گڑگڑا رہی ہے اور لوگوں سے اپنے والد کو نہیں مارنے کے لیے کہہ رہی ہے۔

'ہندوستان میں رہنا ہوگا تو جے شری رام ہی کہنا ہو گا‘

 حالانکہ پولیس نے بعد میں اس 35 سالہ شخص کو بچا لیا تاہم بعض افراد پولیس کی موجود گی میں بھی اسے مارتے رہے۔

IndienRSS unterstützt neues Staatsangehörigkeitsgesetz
تصویر: AFP

آرایس ایس کی سرپرستی

تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ کرانتی سینا دراصل ہندو قوم پرست جماعت راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کی سینکڑوں ذیلی تنظیموں میں سے ایک ہے، جو پورے بھارت میں آر ایس ایس کے نظریا ت کو عملی طورپر نافذ کرنے میں سرگرم ہیں۔

ان میں یوپی کے وزیر اعلی یوگی ادیتیہ ناتھ کی قائم کردہ ہندو یووا واہنی، بجرنگ دل،وشو ہندو پریشد، ون واسی کلیان آشرم، ابھینو بھارت، سری رام سینے، راجپوت کرنی سینا وغیرہ شامل ہیں۔ سن 2014 میں بی جے پی کے مرکز میں اقتدار میں آنے کے بعد سے ان تنظیموں کی سرگرمیاں مزید تیز ہو گئی ہیں اور ان کے کارکنان زیادہ بے خوف ہو گئے ہیں۔

 گوکہ آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت کا کہنا ہے کہ مسلمانوں اور ہندوؤں کا ڈی این اے ایک ہی ہے تاہم گؤ کشی، لو جہاد، تبدیلی مذہب وغیرہ کے نام پر بالخصوص مسلمانوں کے خلاف زیادتی کے واقعات بھی مسلسل ہوتے رہتے ہیں۔ آر ایس ایس ان معاملات کو نظر انداز کرتی رہتی ہے۔

رام مندر کے چندہ نہ دینے والوں کے گھروں پر بھی اسٹیکر

صحافی اسمرتی کوپیکر نے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے،''چونکہ دائیں بازو کی بیشتر ہندو تنظیمیں کسی نہ کسی صورت میں آر ایس ایس سے تعلق رکھتی ہیں اور وزیر اعظم نریندر مودی خود بھی آر ایس ایس کے کارکن رہ چکے ہیں لہذا یہ امید نہیں رکھنی چاہیے  کہ پولیس شدت پسندہندو عناصر کے خلاف کوئی کارروائی کرے گی۔بالخصوص اس صورت میں جبکہ مبینہ 'ملک مخالفین‘ کو گولی مارنے کا سرعام اعلان کرنے والے انوراگ ٹھاکر جیسے لیڈروں کو مودی حکومت میں کابینہ درجے کے وزیر کا عہدہ ملا ہو۔‘‘