بھارت: لوک سبھا میں سروگیسی بل منظور
6 اگست 2019لوک سبھا میں منظوری کے بعد اسے پارلیمان کے ایوان بالا یعنی راجیہ سبھا میں پیش کیا گیا جائے گا جہاں حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کو اکثریت حاصل ہوچکی ہے، لہٰذا اس بل کا قانونی شکل اختیار کرنا یقینی ہے۔
حالیہ برسوں میں بھارت میں سروگیسی یا عورتوں کا رحم کرایہ پر دینے کا کاروباری بڑی تیزی سے بڑھا ہے۔ ا قوام متحدہ کی 2012 کی ایک رپورٹ کے مطابق بھارت میں دو سے تین ہزار غیر قانونی سروگیسی کلینک 400 ملین ڈالر سالانہ کے اس کاروبار میں ملوث ہیں۔ سروگیسی بل پر پارلیمان میں بحث کا جواب دیتے ہوئے وفاقی وزیر صحت ڈاکٹر ہرش وردھن کا کہنا تھا، ”مختلف ممالک میں سروگیسی کے متعلق قوانین کا مطالعہ کرنے بعد ہی بھارت میں کمرشل سروگیسی کو ممنوع قرار دیا جارہا ہے۔"
وفاقی وزیر صحت نے سروگیسی قانون کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا، ”جس خاتون کو سیروگیٹ ماں بنایا جائے گا اس کا بھارتی شہری اور اولاد کے خواہش مند جوڑے سے قریبی تعلق ہونا ضروری ہے۔ یہ بھی ضروری ہے کہ وہ خاتون کبھی نہ کبھی شادی شدہ رہی ہو اور اس کی اپنی اولاد ہوچکی ہو جبکہ اس کی عمر 25 سے 35 برس کے درمیان ہونی چاہیے۔"
تاہم بعض اراکین پارلیمان کا کہنا تھا کہ قانون میں سیروگیٹ ماں بننے کے لیے قریبی رشتہ دار کی جو شرط رکھی گئی ہے وہ مناسب نہیں ہے کیوں کہ بھارتی سماج میں قریبی رشتہ دار خاتون کو سیروگیٹ ماں بننے کے لیے راضی کرنا بہت مشکل ہے۔
مجوزہ قانون کے تحت صرف ایسے لا اولاد جوڑے کو سروگیسی کے ذریعہ اولاد حاصل کرنے کی اجازت ہوگی جن کی شادی کو کم از کم پانچ برس گزر چکے ہوں۔ ساتھ ہی عورت کی عمر 23 سے 50برس اور اس کے شوہر کی عمر 26 سے55 برس کے درمیان ہونی چاہیے۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ بالی ووڈ کے متعدد اداکاروں اور اہم شخصیات بشمول شاہ رخ خان، عامر خان، تشار کپور، فلم ساز کرن جوہر، ٹی وی پروڈیوسر ایکتا کپور، ڈانس ڈائریکٹر فرح خان وغیرہ نے جب سے سروگیسی کے ذریعہ اولاد حاصل کی ہے ملک میں سروگیسی کا رجحان بڑھ گیا ہے۔ دوسری طرف چونکہ بھارت میں سروگیسی کے لیے طبی سہولیات اور عورتوں کا رحم بہت سستے میں دستیاب ہے اس لیے بیرونی ممالک سے بھی بہت بڑی تعداد میں لا اولاد جوڑے اولاد کی خواہش میں بھارت کا رخ کرتے ہیں اور بھارت ایک طرح سے سروگیسی کا مرکز بن چکا ہے۔ لیکن کوئی واضح قانون نہ ہونے کی وجہ سے اس کے غلط استعمال اور بالخصوص غریب خواتین کے استحصال کے واقعات کی خبریں اکثر سامنے آتی رہتی ہیں۔
مجوزہ قانون کے مطابق ضابطوں کی خلاف ورزی کرنے والے کو دس سال قید کی سزا اور دس لاکھ روپے تک جرمانہ ادا کرنا پڑسکتا ہے۔ اس کے علاوہ سروگیسی کے لیے خدمات فراہم کرنے والے تمام کلینکس کو رجسٹریشن کرانا لازمی ہوگا۔
پارلیمان میں سروگیسی بل پر بحث کے دوران حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی کی رکن ریتا بہوگنا جوشی کا کہنا تھا، ”سروگیسی بھارت میں ایک مذاق بن گیا ہے، اس کی آڑ میں جرائم ہو رہے ہیں۔ ایک سروگیسی کے لیے پانچ سے دس لاکھ روپے تک لیے جاتے ہیں لیکن کرایے پر رحم دینے والی خاتون کو صرف ایک سے ڈیڑھ ہزار روپے ہی مل پاتے ہیں اور سارا پیسہ دلال کھاجاتے ہیں۔ حد تویہ ہے کہ اگر حمل ضائع ہوجائے تو عورت کو ایک پیسہ بھی نہیں دیا جاتا جب کہ 88 فیصد خواتین کو تو یہ معلوم ہی نہیں رہتا ہے کہ سروگیسی کے حوالے سے کیا شرائط طے کی گئی ہیں۔"
بھارت کی اشوکا یونیورسٹی میں 'سنٹر فار اسٹڈیز ان جینڈر اینڈ سیکسویلیٹی‘ کی ڈائریکٹر مادھوی مینن کا مجوزہ سروگیسی قانون کے حوالے سے کہنا ہے کہ قانون بنانا اچھی بات ہے لیکن یہ سب کو معلوم ہے کہ بھارت میں قوانین پر کتنا عمل ہوتا ہے اور انہیں نافذ کرنے میں کتنی ایمانداری برتی جاتی ہے۔ مادھوی مینن کے مطابق، ”اس قانون کے نافذ ہونے سے غریب خواتین کی آمدنی کا ایک ذریعہ چھن جائے گا۔ عورتوں کو اپنی مرضی کے مطابق فیصلہ کرنے کی آزادی کی سزا بھگتنا ہوگی دوسری طرف غلط طریقے استعمال کرنے والے اپنا کاروبار جاری رکھیں گے۔"
دہلی میں واقع سینٹر فار سوشل ریسرچ کی ایک تحقیق کے مطابق سیروگیٹ ماں بننے کے لیے راضی ہونے والی بیشتر خواتین گھریلو ملازمائیں ہوتی ہیں جن کی ماہانہ آمدنی تین ہزار روپے کے آس پاس ہوتی ہے۔ ان میں سے صرف بارہ فیصد کو ہی سیروگیٹ ماں بننے کا تجربہ رہتا ہے۔ بیشتر خواتین کو یہ اندازہ ہی نہیں ہوتا ہے کہ سیروگیٹ ماں بننے کے ان پر کیا ذہنی اور نفسیاتی اثرات مرتب ہوں گے۔