بھارت: قبائلی انتہاپسندوں کے خلاف ’آپریشن آل آؤٹ‘ شروع
26 دسمبر 2014بھارتی وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ سے ملاقات کے بعد آرمی چیف جنرل دلبیر سنگھ سوہاگ نے میڈیا کو صرف اتنا بتایا کہ’’ہم نے آسام میں سکیورٹی کی صورت حال کا جائزہ لیا اور ہم یقینی طور پر آسام میں اپنی کارروائی تیز کرنے جارہے ہیں۔‘‘خیال رہے کہ 23 دسمبر کو بوڈو انتہاپسندوں نے سونت پور اور کوکراجھار اضلاع کے دور افتادہ گاؤں پر حملہ کر کے 75 لوگوں کو ہلاک کردیا تھا، جن میں قبائلی اور مسلمان شامل تھے۔ جب کہ تقریباً دو سو افراد اب بھی لاپتہ بتائے جاتے ہیں۔ اس واقعہ میں سات ہزار سے زائد افراد بے گھر ہو چکے ہیں۔
انتہاپسندوں کا نشانہ بننے والے قبائلی آسام میں ڈیڑھ سو سے زائد برسوں سے مقیم ہیں۔ انگریزوں نے کھیتی باڑی کے لیے انہیں بھارت کے دیگر حصوں سے یہاں لا کر بسایا تھا تاہم بوڈو قبائلی انہیں یہاں سے نکال باہر کرنا چاہتے ہیں اور ایک عرصے سے علیحدہ بوڈو لینڈ کے لیے پرتشدد مہم چلا رہے ہیں۔ حالیہ عرصے میں سکیورٹی فورسز نے بوڈو انتہاپسند تنظیم این ڈی ایف بی(ایس) کے خلاف کارروائی کر کے اس کے چالیس کارکنوں کو ہلاک کردیا تھا۔ قبائلیوں کے قتل عام کا تازہ واقعہ اسی کی انتقامی کارروائی قرار دیا جارہا ہے۔
شمال مشرقی ریاست میزورم کے سابق گورنر سوراج کوشل نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’’جب بھی کسی انڈر گراونڈ گروپ میں پھوٹ پڑتی ہے اور ایک گروپ حکومت سے بات چیت کرتا ہے تو دوسرا گروپ سخت گیر ہو جاتا ہے اور ایسے پرتشدد واقعات انجام دیتا ہے۔ یہ تاریخ ہے، خواہ ناگا کی ہو، چاہے میزوکی ہو۔ ہمیشہ ایک گروپ سخت گیر ہوجاتا ہے۔ اس وقت بڑی سمجھداری سے کام لینے کی ضرورت ہوتی ہے کہ بات چیت میں سارے گروپوں کو شامل کیا جائے کیوں کہ اگر آپ صرف ایک گروپ سے بات کریں گے تو دوسرا اپنے وجود کو ثابت کرنے کے لیے ایسا ہی تشدد کرے گا۔‘‘
دریں اثناء آسام کی صورت حال کا جائزہ لے کر واپس لوٹے وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے یہ بتانے سے انکار کیا کہ بوڈو انتہاپسند تنظیموں سے ان کی کوئی بات ہوئی یا نہیں۔ انہوں نے کہا کہ آسام کے دہشت گردانہ واقعہ میں ملوث ہونے کے لیے این ڈی ایف بی (ایس) کے خلاف مرکز کی زیرو ٹالرینس پالیسی کے تحت سخت کارروائی کی جائے گی اور انتہاپسندوں کا صفایا کرنے کی مہم چلائی جائے گی، ایسی تنظیموں سے کوئی بات نہیں ہو گی، صرف کارروائی کی جائے گی۔
میزورم کے سابق گورنر سوراج کوشل بھی اس خیال سے متفق ہیں کہ ان حالات میں جو گروپ بات چیت نہیں کرنا چاہتا ہے اس کے خلاف صرف سخت کارروائی ہی مناسب آپشن ہے۔ انہوں نے کہا کہ’’ انتہاپسندوں کے خلاف کارروائی کے لیے آج جتنے بہتر حالات ہیں اتنے کبھی نہیں تھے۔ بنگلہ دیش اور میانمار حکومت کے ساتھ اچھے روابط ہیں اور بھوٹان نے تو خود ہی ایک زمانے میں بھارت کے انتہاپسندوں کے خلاف کارروائی کی تھی۔‘‘
دریں اثنا ذرائع کے مطابق وزارت داخلہ نے آرمی چیف سے یہ یقینی بنانے کے لیے کہا ہے کہ تشدد سے متاثرہ علاقوں میں امن رہے اور کوئی ناخوشگوار واقعہ نہ ہونے پائے۔ ذرائع کے مطابق وزیر داخلہ نے آرمی چیف سے بوڈو انتہاپسندوں کے خلاف بھوٹان اور میانمار کی فوج کے ساتھ مربوط کارروائی پر بھی بات کی ہے۔ خیال رہے کہ این ڈی ایف بی نے بھوٹان اور میانمار میں اپنے کئی اڈے بنارکھے ہیں۔
وزیر خارجہ سشما سوراج پہلے ہی بھوٹان حکومت سے بات چیت کرچکی ہیں اور بھوٹان انہیں دہشت گرد گروپوں کے خلاف کارروائی کی یقین دہانی کرا چکا ہے۔ میانمارکی جانب سے بھی اپنے علاقے سے دہشت گردوں کو نکال باہر کرنے کا اعلان سامنے آ چکا ہے جبکہ چین کو بھی اس آپریشن کے حوالے سے آگاہ کر دیا گیا ہے۔
دریں اثنا بوڈو انتہاپسندوں کے حملے کے خلاف قبائلیوں کے احتجاجی مظاہرے جاری ہیں جس میں اب تک متعدد افراد ہلاک ہو چکے ہیں جب کہ متعدد مکانات اور املاک کو آگ لگا دی گئی ہے۔ اس دوران آج پورے آسام میں بارہ گھنٹے کی ہڑتال کی گئی جس سے معمولات زندگی بری طرح متاثر ہوئے۔