1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت: سب سے بڑے ہندو مسلم مذہبی تنازعے کا حل، مدت میں توسیع

10 مئی 2019

ایودھیا میں تاریخی بابری مسجد کی جگہ پر رام مندر کی تعمیر کا متنازعہ منصوبہ بھارت کا سب سے بڑا ہندو مسلم مذہبی تنازعہ ہے، جو عشروں سے حل نہیں ہوا۔ اب ملکی سپریم کورٹ نے اس تنازعے میں ثالثی کی مدت میں توسیع کر دی ہے۔

https://p.dw.com/p/3IH6h
ایودھیا میں تاریخی بابری مسجد کو 1992ء میں انتہا پسند ہندوؤں کے ایک بہت بڑے مشتعل ہجوم نے منہدم کر دیا تھاتصویر: AFP/Getty Images

شمالی بھارت کے شہر ایودھیا میں بابری مسجد کہلانے والی مسلم عبادت گاہ 16 ویں صدی میں تعمیر کی گئی تھی اور اسے 1992ء میں انتہا پسند ہندوؤں کے ایک بہت بڑے مشتعل ہجوم نے منہدم کر دیا تھا۔ اس کے بعد بھارت میں، جو آبادی کے لحاظ سے دنیا کا دوسرا سب سے بڑا اور ایک ہندو اکثریتی ملک ہے، انتہائی خونریز مذہبی فسادات شروع ہو گئے تھے، جن میں دو ہزار کے قریب انسان مارے گئے تھے۔ یہ فسادات 1947ء میں برصغیر پر برطانوی نوآبادیاتی حکمرانی کے خاتمے کے بعد سے آج تک کے سب سے ہلاکت خیز ہندو مسلم فسادات ثابت ہوئے تھے۔

’رام کی جائے پیدائش‘

کئی انتہا پسند اور قوم پرست ہندوؤں کا دعویٰ ہے کہ بابری مسجد جس جگہ تعمیر کی گئی تھی، وہ ہندو دیوتا رام کی جائے پیدائش ہے۔ اسی لیے وہ وہاں پر ایک ہندو مندر تعمیر کرنا چاہتے ہیں۔ ربع صدی سے بھی زیادہ عرصہ قبل بابری مسجد کے انہدام کے بعد سے اس بارے میں مسلمانوں اور ہندوؤں کے مابین ایک مسلسل قانونی جنگ جاری ہے، جس دوران سالہا سال تک مختلف مقدمات کی سماعت کے بعد بھارتی سپریم کورٹ نے فیصلہ یہ کیا تھا کہ اس تنازعے کو پرامن طور پر حل کرنے کے لیے ایک ثالثی پینل کے حوالے کر دیا جائے۔

Indien Hindu-Nationalisten fordern den Bau eines Tempels
ہندو قوم پرست مظاہرین بابری مسجد کی جگہ پر رام مندر کی تعمیر کا مطالبہ کرتے ہوئےتصویر: Getty Images/AFP/S. Hussain

اس معاملے میں تصفیے کا کام انڈین سپریم کورٹ کے جس ثالثی پینل کو سونپا  گیا تھا، اب اس کی مدت میں تین ماہ کی توسیع کر دی گئی ہے۔ اس توسیع کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ بھارت میں ان دنوں کل سات مراحل میں قومی پارلیمان کے جو انتخابات ہو رہے ہیں، وہ گیارہ اپریل کو شروع ہوئے تھے اور 23 مئی کو مکمل ہوں گے۔

پندرہ اگست تک کی توسیع

بھارتی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس رنجن گوگوئی نے اب اس پینل کو دیے گئے وقت میں 15 اگست تک کے لیے تین ماہ کی توسیع کر دی ہے۔ اس پینل کی ایک ابتدائی رپورٹ ملنے کے بعد چیف جسٹس رنجن  گوگوئی نے جمعہ دس مئی کو کہا، ’’ہمیں اس پینل میں شامل ثالثوں کی طرف سے یہ درخواست کی گئی تھی کہ ان کو ثالثی کے لیے دی گئی مدت میں ایک سہ ماہی کی توسیع کر دی جائے۔ ہم نے یہ درخواست منظور کر لی ہے اور اب اس پینل کے پاس اپنی ذمے داریاں پوری کرنے کے لیے 15 اگست تک کا وقت ہو گا۔‘‘

1990 Unruhen vor der Babri-Moschee vor der Zerstörung 1992
انہدام سے دو سال قبل بابری مسجد کی انیس سو نوے میں لی گئی ایک تصویرتصویر: AP

بھارت میں جاری قومی انتخابات سے کچھ پہلے ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) سے تعلق رکھنے والے وزیر اعظم نریندر مودی کے سخت گیر سیاسی حامیوں نے بار بار یہ مطالبہ کرنا شروع کر دیا تھا کہ ایودھیا میں جلد از جلد رام مندر تعمیر کیا جانا چاہیے۔ لیکن پھر قدامت پسند ہندوؤں نے دانستہ طور پر اور ایک انتخابی مصلحت کی وجہ سے یہ مطالبہ پس پشت ڈال دیا تھا۔

ایودھیا میں 1528ء میں تعمیر کی گئی اور عشروں پہلے منہدم کر دی گئی بابری مسجد کے تنازعے کے حل کرنے کے لیے ملکی سپریم کورٹ نے ثالثی پینل کی تشکیل کا حکم آٹھ مارچ کو سنایا تھا۔

بھارت کی قریب 1.3 ارب کی آبادی میں مسلمان سب سے بڑی اقلیت ہیں، جن کا ملکی آبادی میں تناسب تقریباﹰ 14 فیصد بنتا ہے۔

م م / ع ح / روئٹرز

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں