1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت: ریاست یو پی میں حلال اشیا کی فروخت پر پابندی

20 نومبر 2023

ریاستی حکومت کے حکم کے مطابق حلال سرٹیفکیٹ والی ادویات سمیت دیگر مصنوعات کے ذخیرہ کرنے، تقسیم کرنے، خرید و فروخت کرنے پر پابندی ہے اور ایسا کرنے والے فرد یا کمپنی کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔

https://p.dw.com/p/4ZAKk
حلال کا لوگو
حالیہ مہینوں میں وشو ہندو پریشد، بجرنگ دل اور سری رام سینے جیسی متعدد شدت پسند ہندو تنظیمیں حلال مصنوعات کے بائیکاٹ کی حمایت میں پوری شدت کے ساتھ میدان میں آئی ہیںتصویر: Adam Berry/AFP/Getty Images

بھارتی ریاست اتر پردیش کی ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت نے ریاست میں حلال سرٹیفکیٹ والی مصنوعات کی پیداوار، ذخیرہ کرنے، تقسیم کرنے اور فروخت کرنے پر پابندی لگا دی ہے۔

بھارتی صوبے کرناٹک میں ’حلال‘ کے خلاف قانون سازی متوقع

ریاست میں فوڈ سیفٹی اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن کی ایڈیشنل چیف سیکرٹری انیتا سنگھ نے اس کا اعلان کرتے ہوئے ہفتے کے روز ایک نوٹیفکیشن جاری کیا۔

بھارت میں اب آئس کریم اور مسلم ڈرائیور بھی شدت پسند ہندوؤں کے نشانے پر

کمشنر انیتا سنگھ کا کہنا تھا کہ ڈیری مصنوعات، چینی، بیکری کی اشیاء، پیپرمنٹ آئل، خوردنی تیل اور نمکین جیسی کھانے پینی کی بعض اشیا پر حلال سرٹیفیکیشن کا ذکر کیا جاتا ہے اور بہت سی ایشیا پر اس طرح کا لیبل بھی لگا ہوا ہوتا ہے۔

بھارت: شدت پسند ہندو تنظیموں کواب مسلم پھل فروشوں سے پریشانی

انہوں نے اس پر پابندی کا اعلان کرتے ہوئے کہا، ''کھانے کی مصنوعات پر حلال سرٹیفیکیشن ایک متوازی نظام تھا، جس نے الجھن کی صورت حال پیدا کی اور یہ مذکورہ قوانین کے بنیادی مقصد کے بالکل خلاف ہے۔‘‘

ہندو 'حلال' چیزیں استعمال نہ کریں، سنگھ پریوار کا مشورہ

 یوپی حکومت کا کہنا ہے کہ سن 2006 کے قانون کے سیکشن 52 کے تحت کھانے کی غلط برانڈنگ کے جرم کے لیے کمپنی یا افراد پر 3 لاکھ روپے تک جرمانے کی سزا بھی دی جا سکتی ہے۔

بھارت: کورونا وائرس کی ویکسین حلال ہے یا حرام؟

بیان کے مطابق، ''حلال سرٹیفیکیشن ایک متوازی نظام کے طور پر کام کر رہا ہے اور یہ کھانے کے معیار کے حوالے سے ابہام پیدا کرتا ہے اور اس سلسلے میں حکومتی قوانین کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔‘‘

فرانس ميں نقاب پر پابندی: مسلمانوں کا ردعمل

البتہ حکومت نے اپنے اعلان میں ان حلال اشیا کو اس پابندی سے الگ رکھا ہے، جنہیں بیرون ملک سے درآمد کر کے بازار میں فروخت کیا جا رہا ہے اور ان پر پہلے سے ہی حلال کا لیبل لگا ہوا ہے۔

حلان لوگو
ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ یہ کمپنیاں مذہب کے نام پر، 'ملک میں عناد، علیحدگی پسندی اور دہشت گرد تنظیموں کی فنڈنگ بھی کرتی ہیں'تصویر: 3sat

پابندی سے پہلے ایف آئی آر

اس حوالے سے ریاستی دارالحکومت لکھنؤ کے حضرت گنج پولیس اسٹیشن میں بعض تنظیموں، پروڈکشن کمپنیوں، ان کے مالکان اور  ان کے مینیجرز کے خلاف حلال سرٹیفیکیشن کے نام پر رقم حاصل کرنے کے خلاف ایک ایف آئی آر درج کی گئی تھی، جس کے بعد یوگی آدتیہ ناتھ کی حکومت نے اس پابندی کا اعلان کیا۔

یہ ایف آئی آر شیلیندر کمار شرما نامی ایک شخص نے درج کرائی، جن کا ان کمپنیوں پر بغیر کسی اختیار کے حلال سرٹیفکیٹ جاری کرنے کا الزام ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ کمپنیاں مذہب کے نام پر، ''ملک میں عناد، علیحدگی پسندی اور دہشت گرد تنظیموں کی فنڈنگ بھی کرتی ہیں۔‘‘

اس ایف آئی آر میں جن لوگوں کو ملزم بنایا گیا ہے، اس میں چینئی کی حلال انڈیا پرائیویٹ لمیٹڈ، دہلی کی جمعیۃ علمائے ہند حلال ٹرسٹ، حلال کونسلنگ آف انڈیا اور ممبئی کی جمعیت علمائے سمیت بعض نامعلوم لوگوں کے نام شامل ہیں۔

اس دوران جمعیت علمائے ہند کے 'حلال ٹرسٹ‘ نے ان الزامات کو ''بے بنیاد‘‘ بتاتے ہوئے کہا ہے کہ اس کا مقصد اس کی شبیہ کو ''داغدار‘‘ کرنا ہے۔ تنظیم نے کہا کہ اس حوالے سے غلط معلومات کے سدباب کے لیے ضروری قانونی اقدامات کیے جائیں گے۔

حلال سیاحت: دنیا بھرمیں مسلمان سیاح کن ممالک کا رخ کرتے ہیں؟

جمعیت کا کہنا ہے کہ اس کے سرٹیفیکیشن کا عمل بھارت میں برآمدگی گئی اور گھریلو اشیاء دونوں کے لیے ضرورت کے مطابق ہے اور یہ کہ وہ اس حوالے سے حکومتی ضوابط کی پاسداری کرتا ہے۔

حلال مصنوعات اقتصادی جہاد ہے، بی جے پی

حالیہ مہینوں میں وشو ہندو پریشد، بجرنگ دل اور سری رام سینے جیسی متعدد شدت پسند ہندو تنظیمیں حلال مصنوعات کے بائیکاٹ کی حمایت میں پوری شدت کے ساتھ میدان میں آئی ہیں۔

گزشتہ برس بی جے پی کے قومی جنرل سکریٹری سی ٹی روی نے بھی ان تنظیموں کی حمایت کرتے ہوئے حلال اشیاء کے استعمال کو اقتصادی جہاد قرار دیا تھا۔

روی نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا، ''حلال ایک اقتصادی جہاد ہے، اگر ہندو یہ کہتے ہیں کہ انہیں حلال کھانا پسند نہیں تو اس میں غلط کیا ہے؟ کیا مسلمان کسی ہندو سے گوشت خریدیں گے؟  پھر آخر یہ کیوں کہا جا رہا ہے کہ ہندوؤں کو مسلمانوں سے گوشت خریدنا چاہئے؟‘‘

گزشتہ برس ہندو قوم پرست تنظیم آر ایس ایس سے وابستہ ہندو جن جاگرتی سمیتی نے ہندوؤں سے اپیل کی تھی کہ اوگاڑی یا سال نو کے تہوار کے موقع پر حلال گوشت نہ خریدیں۔ اوگاڑی کا تہوار بہار میں منایا جاتا ہے۔ اس موقع پر ہندو بڑی مقدار میں بالخصوص بکرے کا گوشت استعمال کرتے ہیں، جو عام طور پر مسلمانوں کی دکانوں پر دستیاب ہوتا ہے۔

ہندو جن جاگرتی سمیتی کے ریاستی ترجمان موہن گوڑا نے مسلمانوں کے خلا ف مہم کو ہوا دیتے ہوئے ہندوؤں سے اپیل کی تھی کہ وہ حلال گوشت فروخت کرنے والے مسلمانوں کی دکانوں سے خریداری نہ کریں۔

ان کا کہنا تھا، ''ہمارے علم میں یہ بات آئی ہے کہ حلال مصنوعات کے فروخت سے ہونے والی آمدنی کا استعمال دہشت گردی اور ملک دشمن سرگرمیوں میں کیا جا رہا ہے۔ حلال مصنوعات خریدنا ملک دشمن سرگرمیوں کی حمایت کے مترادف ہے۔‘‘

فرانس میں حلال سیاحت