بھارت: جوہری طاقت کو مزید وسعت دینے کے لیے قانون میں ترمیم؟
12 فروری 2025یہ وعدے اس ماہ کے اوائل میں بھارت کی وزیر خزانہ نے بجلی کی پیداوار کو بڑھانے اور نقصان دہ گیسوں کے اخراج کو کم کرنے کے منصوبے کے تحت کیے۔ نیوکلیئر پاور بجلی بنانے کا ایسا طریقہ ہے جو کرہ ارض کو گرم کرنے والی گیسوں کا اخراج نہیں کرتی ہے، حالانکہ یہ تابکار فضلہ پیدا کرتی ہے۔
بھارت دس نئے جوہری پلانٹ تعمیر کرے گا
بھارت کرہ ارض کو گرم کرنے والی اور دنیا کے سب سے زیادہ نقصان دہ گیسوں کا اخراج کرنے والے ملکوں میں سے ایک ہے اور اس کی 75 فیصد سے زیادہ بجلی اب بھی فوسل ایندھن، بالخصوص کوئلے سے پیدا ہوتی ہے۔ بھارت 2047 تک 100 گیگا واٹ جوہری توانائی حاصل کرنا چاہتا ہے جو کہ تقریباً 60 ملین بھارتی گھروں کو سالانہ بجلی فراہم کرنے کے لیے کافی ہے۔
توانائی کے ماہرین کا کہنا ہے کہ دنیا کو کوئلہ، تیل اور گیس جیسے کاربن آلودگی پھیلانے والے ایندھن سے دور ہونے کے لیے جوہری توانائی جیسے ذرائع کی ضرورت ہے، جو سورج اور ہوا پر انحصار نہیں کرتے ہیں لیکن یہ ہمیشہ دستیاب نہیں ہوتے۔ تاہم کچھ لوگ بھارت کے عزائم کے بارے میں شکوک و شبہات کا شکار ہیں کیونکہ ملک کا جوہری شعبہ اب بھی بہت محدود ہے، اور اس صنعت کے بارے میں منفی عوامی تاثرات برقرار ہیں
جوہری توانائی شمسی توانائی سے تقریباً تین گنا مہنگی
کولمبیا یونیورسٹی کے سینٹر آن گلوبل انرجی پالیسی کے ایک سینیئر ریسرچ ایسوسی ایٹ شیک سین گپتا نے کہا کہ اس شعبے کو بڑھانے کے لیے، ٹرمپ انتظامیہ کی تجارت کو دوبارہ ترتیب دینے کی خواہش فائدہ مند ہو سکتی ہے۔
’بھارتی ایٹمی ری ایکٹر نئی دہلی کی سڑکوں سے کم خطرناک‘
بھارت کا جوہری ترقی کا منصوبہ امریکی برآمدات کے لیے "کافی مواقع" فراہم کرتا ہے، کیونکہ وہاں جوہری توانائی کا شعبہ بہت زیادہ پختہ ہے، اور کمپنیاں ٹیکنالوجی، جیسے چھوٹے اور سستے جوہری ری ایکٹر، کی ترقی پر کام کر رہی ہیں۔ بھارت بھی چھوٹے ری ایکٹرز میں سرمایہ کاری کر رہا ہے۔
بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی بدھ کو صدر ٹرمپ سے ملاقات کرنے والے ہیں۔ بھارت کے وزیر تیل کے مطابق، دونوں رہنما دیگر موضوعات کے علاوہ جوہری توانائی پر بھی بات چیت کریں گے۔
جوہری توانائی بھارت میں شمسی توانائی سے تقریباً تین گنا مہنگی ہے اور شمسی توانائی کی اتنی ہی مقدار کے مقابلے میں اسے نصب ہونے میں چھ سال لگ سکتے ہیں، جس میں عام طور پر ایک سال سے بھی کم وقت لگتا ہے۔ نئے چھوٹے ماڈیولر ری ایکٹر سستے ہیں اور تیزی سے بن سکتے ہیں، لیکن وہ بجلی بھی کم بناتے ہیں۔
بھارت پچھلی دہائی میں ملک میں نصب جوہری توانائی کی مقدار کو دوگنا کرنے میں کامیاب ہو گیا ہے، لیکن اس سے وہ اب بھی اپنی مجموعی بجلی کا صرف تین فیصد ہی بناتا ہے۔
ماحولیاتی تھنک ٹینک، امبر کی توانائی کی تجزیہ کار روچیتا شاہ، کا کہنا ہے کہ اس کے باوجود "عوام کو اس بات پر قائل کرنا کہ وہ پراجیکٹس کو ان کے آس پاس کے علاقوں میں لگانے کی اجازت دے دیں، پہلا چیلنج ہے۔"
عوام کو قائل کرنا ایک بڑا چیلنج
مقامی کمیونٹیز نے سلامتی اور ماحولیاتی خدشات کا حوالہ دیتے ہوئے گزشتہ دہائی میں جنوبی بھارت کے کڈانکولم جوہری پاور پلانٹ اور مغربی ریاست مہاراشٹر میں مجوزہ جوہری پلانٹ کے خلاف احتجاج کیا ہے۔
بین الاقوامی توانائی ایجنسی(آئی ای اے) میں پاور سیکٹر یونٹ کے سربراہ برینٹ وینر کا خیال ہے کہ (جوہری توانائی میں) "سرمایہ کاروں اور حکومتوں کے لیے، "دلچسپی کی سطح 1970 کی دہائی میں تیل کے بحران کے بعد سے اب سب سے زیادہ ہے۔" اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ قابل اعتماد اور صاف توانائی ہے۔
آئی ای اے نے پایا کہ دنیا بھر میں اس وقت 63 جوہری ری ایکٹر زیر تعمیر ہیں، جو 1990 کے بعد سے سب سے زیادہ ہیں۔
ہائیڈروجن اکانومی: ایک خواب یا حقیقت
وینر نے کہا کہ حکومتیں جوہری توانائی کے منصوبوں کو شروع کرنے میں اہم ہیں اور جوہری صنعت کے لیے بھارت کا منصوبہ "بہت مثبت" ہے۔
ماحولیاتی تھنک ٹینک تھری ای جی کی مدھورا جوشی نے کہا کہ نیوکلیئر انرجی پر نظر رکھتے ہوئے بھی، بھارت کو توانائی کے ان دیگر ذرائع کو نہیں بھولنا چاہیے جو گرین ہاؤس گیسوں کا اخراج نہیں کرتے۔
جوشی کا کہنا تھا، شمسی، دیگر قابل تجدید ذرائع اور اسٹوریج کو بہت تیز اور جلد بنایا جاسکتا ہے، یہ "فوری حل ہیں، جن کی ضرورت ہے۔"
ج ا ⁄ ص ز (ایسوسی ایٹڈ پریس)