1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت: ایک تو لڑکی، وہ بھی بہت ہی چھوٹی اور کمزور

کشور مصطفیٰ18 جون 2015

بھارت میں دو دہائیوں سے اقتصادی ترقی میں اضافے کے باوجود پانچ سال سے کم عمر بچوں کی قریب نصف تعداد غذائیت کی کمی کا شکار ہے۔ ان میں اکثریت لڑکیوں کی ہوتی ہے جنہیں اکثر پیدائش کے فوراﹰ بعد ان کے حال پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔

https://p.dw.com/p/1Fj4v
تصویر: AP

مشرقی بھارت کے ایک بہت غریب اور پسماندہ گاؤں میں جب ڈاکٹروں کو مٹی کے ایک ڈھیر میں سے ایسی ہی ایک بچی ملی تھی جو بمشکل سانس لے رہی تھی، جس کا قد بہت چھوٹا اور جسم نہایت لاغر تھا، تب ہی انہیں اندازہ ہو گیا تھا کہ تنہا چھوڑ دی گئی اس بچی کو دوبارہ ایک تندرست انسان بنانے کا عمل آسان نہ ہو گا۔

دو ماہ تک ڈاکٹروں نے اُس کی مکمل نگہداشت کی، اُسے مناسب غذا پہنچائی، تب جا کر پالک کا وزن اُس کی عمر کے حساب سے جتنا ہونا چاہیے تھا، اُس کا نصف ہو سکا تھا۔ ریاست بہار کے ایک کلینک کے انتہائی نگہداشت کے یونٹ کے ایک بستر پر خستہ حال پڑی ہوئی غذائی قلت کی شکار پالک میں رونے تک کی سکت نہیں۔ وہ انتہائی ناتواں آواز میں روتی ہے اور آس پاس کے لوگوں کی توجہ چاہتی ہے۔

Symbolbild Geburt Abtreibung Schwangerschaft Massensterilisation
بھارت میں پیدائش کے بعد ہی بچیوں کی اکثریت کو ترک کر دیا یا کہیں چھوڑ دیا جاتا ہے۔تصویر: picture-alliance/ZUMAPRESS.com

ناکافی غذائیت

گزشتہ دو عشروں سے بھارت میں اقتصادی نمو کی شرح بلندی پر ہے۔ اس کے باوجود پانچ سال سے کم عمر کے 46 فیصد بچے اوسط سے کم جسمانی وزن رکھتے ہیں۔ 48 فیصد بچے غیر کامل جسمانی نمو کا شکار ہیں جبکہ 25 فیصد صحت کی خرابی کے سبب دم توڑ دیتے ہیں۔ یہ تازہ اعداد و شمار بھارتی حکومت کی طرف سے منظر عام پر لائے گئے ہیں۔ تاہم جس بارے میں بہت زیادہ شعور نہیں پایا جاتا، وہ یہ حقیقت ہے کہ پالک جیسی بچیوں کی اکثریت کو ترک کر دیا یا کہیں چھوڑ دیا جاتا ہے۔ انہیں خود ان کے والدین یا خاندان والے نظر انداز کرتے ہیں، ان لڑکیوں کو ان کے بھائیوں کے مقابلے میں کم غذائیت والی اور کم مقدار میں غذا دی جاتی ہے۔ ان حقائق پر سے پردہ اُٹھاتے ہوئے ہیلتھ ورکرز کہتے ہیں کہ اس کی سب سے بڑی وجہ بھارت کا پدر سری معاشرہ ہے۔ بھارت میں سرگرم طبی خیراتی ادارے ’ڈاکٹرز وِدآؤٹ بارڈرز‘ یا MSF نے ریاست بہار کے دھربنگا ضلع میں ایک مرکز قائم کر رکھا ہے۔ اس کے طبی سرگرمیوں کے مینیجر ضیاءالحق اس بارے میں کہتے ہیں، ’’پانچ ماہ کے ایک صحت مند بچے کا وزن پانچ کلو گرام یا 11 پونڈ ہونا چاہیے۔ تاہم ہمیں ایسے بھارتی بچے ملتے ہیں جن کی عمر دو سال ہوتی ہے اور وزن دو کلو گرام ہوتا ہے۔‘‘

ضیاءالحق نے مزید بتایا کہ ان کے مرکز میں بھرتی ہونے والے اور علاج مکمل ہونے سے پہلے ہی وہاں سے رخصت ہو جانے والے بچوں میں دو تہائی سے زیادہ تعداد لڑکیوں کی ہوتی ہے۔

Indien Mädchen leiden an Hunger Symbolbild
بھوک کی شکار ایک بھارتی بچیتصویر: picture-alliance/dpa

لڑکیوں کو کم ملتا ہے

دنیا بھر میں ہر سال ہلاک ہونے والے بچوں میں سے 3 ملین کی اموات کی وجہ اُن میں پائی جانے والی غذائیت کی کمی ہوتی ہے۔ اقوام متحدہ کے بہبود اطفال کے ادارے یونیسیف کے مطابق دنیا بھر میں ہونے والی بچوں کی کُل ہلاکتوں میں سے قریب نصف کا سبب قابلِ علاج بیماریاں بنتی ہیں جیسے کہ اسحال وغیرہ۔ یہ بیماریاں ان بچوں کے کمزور جسمانی مدافعتی نظام کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں۔

ان عارضوں کے شکار جو بچے خوش قسمتی سے بچ جاتے ہیں، اُن کی نشو و نما ناقص ہی ہوتی ہے کیونکہ اُن میں طاقت، پروٹین اور معدنیات کی شدید کمی باقی رہ جاتی ہے۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ان بچوں کا دماغ اور جسم غیر کامل نمو کا شکار رہتا ہے جس کی وجہ سے وہ اپنی جسمانی، ذہنی، تعلیمی اور اقتصادی صلاحیتوں اور کارکردگی میں کمزور رہ جاتے ہیں۔

بھارت میں بچوں کی صحت سے متعلق کیے جانے والے متعدد مطالعاتی جائزے اس امر کی مزید تصدیق کرتے ہیں کہ اس جنوبی ایشیائی معاشرے میں لڑکوں سے زیادہ لڑکیاں ناقص اور ناکافی غذا کا شکار رہتی ہیں۔