1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتایشیا

بھارت اسرائیل کو ہتھیار بھیجنا بند کرے، اپوزیشن کا مطالبہ

26 اگست 2024

اپوزیشن اراکین پارلیمان سمیت سینیئر بھارتی رہنماؤں کے ایک گروپ نے مودی حکومت سے اسرائیل کو مزید ہتھیار نہ بھیجنے کی اپیل کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ غزہ پر حملے انسانیت کے منافی اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی بھی ہیں۔

https://p.dw.com/p/4juqX
مودی اور نتن یاہو
بھارتی رہنماؤں نے مرکز میں مودی حکومت سے اسرائیل کو ہتھیاروں اور گولہ بارود کی سپلائی بند کرنے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ وہ فلسطین کے عوام کے ساتھ یکجہتی کے ساتھ کھڑے ہیں تصویر: Thomas Coex/AFP/Getty Images

بھارت میں اتوار کے روز کانگریس، سماج وادی پارٹی اور عام آدمی پارٹی سمیت حزب اختلاف کی کئی جماعتوں کے سرکردہ رہنماؤں نے نریندر مودی کی قیادت والی ہندو قوم پرست جماعت بی جے پی کی حکومت پر زور دیا کہ وہ اسرائیل کو ہتھیاروں اور گولہ بارود کی سپلائی فوری طور پر روک دے۔

اس حوالے سے بعض رہنماؤں نے ایک مشترکہ بیان میں خطے میں پائی جانے والی صورت حال کی مذمت کی اور کہا کہ بھارت کو اس میں شریک نہیں ہونا چاہیے۔

غزہ میں اقوام متحدہ کے کارکن سابق بھارتی فوجی ہلاک

اہم بات یہ ہے کہ جن جماعتوں نے مودی حکومت سے یہ اپیل کی ہے، اس میں بی جے پی کی زیر قیادت این ڈی اے کی حکومت میں شامل ایک اہم حلیف جماعت، جنتا دل (یونائیٹڈ) کے ایک سینیئر رہنما کے سی تیاگی بھی شامل ہیں۔

غزہ کی جنگ کے باوجود بھارت کو اسرائیلی فوجی برآمدات جاری

بھارت کے متعدد میڈیا ادارے یہ خبریں مسلسل شائع کرتے رہے ہیں کہ اسرائیل اور حماس کی جنگ کے دوران بھارت کس طرح اسرائیل کو گولہ بارود بھیج کر اس کی مدد کرتا رہا ہے۔

روایتی طور پر بی جے پی حکومت اسرائیل کے ساتھ گہرے تعلقات کی حمایت کرتی رہی ہے اور غزہ کی جنگ کے دوران بھارت میں جب بھی کسی نے فلسطینی پرچم اٹھانے کی کوشش کی، تو اسے فوری طور پر گرفتار کر لیا گیا۔ یہ رجحان خاص طور پر بی جے پی کی علاقائی حکومت والی ریاستوں میں دیکھا گیا ہے۔

بھارتی رہنماؤں نے مودی حکومت سے کیا اپیل کی؟

نئی دہلی میں اتوار کے روز ایک فلسطینی رہنما اور القدس لیگ آف پارلیمنٹیرینز کے جنرل سیکرٹری محمد مکرم بلاوی سے ملاقات کے بعد ایک مشترکہ بیان سامنے آیا۔ اس میٹنگ کے دوران بلاوی نے اسرائیل کی جانب سے بین الاقوامی قانون کی مبینہ خلاف ورزیوں کے بارے میں تفصیل سے بات کی۔

مودی اور نیتن یاہو
روایتی طور پر بی جے پی حکومت اسرائیل کے ساتھ گہرے تعلقات کی حمایت کرتی رہی ہے اور اس نے اس حوالے سے اقوام متحدہ میں ہونے والی ووٹنگ کا بائیکاٹ کیاتصویر: Gil Cohen-Magen/AFP/Getty Images

میٹنگ کے بعد ایک مشترکہ بیان میں کہا گیا کہ جس طرح اسرائیل غزہ پٹی میں عسکری کارروائیاں کر رہا ہے، وہ بین الاقوامی قانون اور انصاف کے اصولوں کی خلاف ورزی ہے۔

بھارت ہزاروں مزدوروں کو اسرائیل کیوں بھیج رہا ہے؟

مرکز میں مودی حکومت سے اسرائیل کو ہتھیاروں اور گولہ بارود کی سپلائی بند کرنے پر زور دیتے ہوئے اس بیان میں مزید کہا گیا کہ ''ایک ایسی قوم کے طور پر جس نے ہمیشہ انصاف اور انسانی حقوق کی حمایت کی ہے،‘‘ بھارت اس خونریزی میں شریک نہیں ہو سکتا۔

ان رہنماؤں نے مہاتما گاندھی اور سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی کا حوالہ دیتے کہا کہ غیر عرب ملک کے طور پر سن 1988 میں فلسطین کو سب سے پہلے تسلیم کرنے والے بھارت کو اس بات پر فخر ہے اور اس نے فلسطینی عوام کے ''حق خود ارادیت، خود مختاری اور آزادی کے حق‘‘ کی مسلسل حمایت کی ہے۔

مودی حکومت پر تنقید کرنے والے بھارتی صحافی پھر نشانے پر

ان رہنماؤں نے مزید کہا، ''ہم فلسطین کے عوام کے ساتھ یکجہتی کے ساتھ کھڑے ہیں اور بھارتی حکومت اور عالمی برادری سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں پر عمل درآمد کے لیے تیزی سے کام کریں اور امن و انصاف کو یقینی بنائیں۔‘‘

میٹنگ میں کون کون سے رہنما شامل تھے؟

اتوار کے روز فلسطینی رہنما کی ساتھ ہونے والی میٹنگ میں نریندر مودی کی حلیف جماعت جنتا دل یونائیٹڈ کے جنرل سیکرٹری کے سی تیاگی اور سماج وادی پارٹی سے راجیہ سبھا کے رکن جاوید علی خان بھی موجود تھے۔ ان کے علاوہ کانگریس پارٹی کے ترجمان  میم افضل اور ایس پی کے رکن پارلیمان محب اللہ ندوی بھی ملاقات میں موجود تھے۔

دہلی میں اسرائیلی سفارت خانے کے قریب دھماکہ

سابق رکن پارلیمنٹ اور راشٹر وادی سماج پارٹی کے سابق صدر محمد ادیب، عام آدمی پارٹی کے رہنما سنجے سنگھ نیز پنکج پشکر اور لوک سبھا کے سابق ممبر کنور دانش علی نے بھی اس مشترکہ بیان پر دستخط کیے ہیں۔

اسرائیل اور فلسطین کے مسئلے پر اس میٹنگ کے حوالے سے جے ڈی (یو) کے رہنما کے سی تیاگی نے بھارتی اخبار انڈین ایکسپریس کو بتایا، ''جنتا پارٹی کے وقت سے ہم فلسطین کی حمایت کر رہے ہیں۔ سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی سمیت بھارتی حکومتیں بھی فلسطینی کاز کی حمامی رہی ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ غزہ میں ہلاکتیں بند ہوں اور اسرائیل اور فلسطین کے حوالے سے اقوام متحدہ کی قراردادوں کا احترام کیا جائے۔‘‘

پریانکا گاندھی کا موقف

بھارت میں سب سے پہلے کانگریس پارٹی کی سرکردہ رہنما اور راہول گاندھی کی بہن پریانکا گاندھی نے جولائی میں اس تنازعے پر کھل کر تنقیدی بات کی تھی۔ اس کے بعد سے یہ پہلا موقع ہے کہ کئی بھارتی سیاسی رہنماؤں نے اس طرح کھل کر اسرائیل پر تنقید کی ہے۔

پریانکا گاندھی نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر اپنی ایک پوسٹ میں لکھا تھا، ''یہ ہر صحیح سوچ رکھنے والے فرد کی اخلاقی ذمہ داری ہے، جس میں وہ تمام اسرائیلی شہری بھی شامل ہیں جو نفرت اور تشدد پر یقین نہیں رکھتے اور دنیا کی ہر حکومت بھی، کہ وہ غزہ میں اسرائیلی حکومت کے اقدامات کی مذمت کرے اور اسے ان اقدامات کو روکنے پر مجبور کرے۔ یہ اقدامات ایسی دنیا میں ناقابل قبول ہیں، جو تہذیب اور اخلاقیات کا دعویٰ کرتی ہے۔‘‘

اس سے پہلے بھی پریانکا گاندھی نے غزہ کی جنگ میں اسرائیل پر بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کا الزام لگایا تھا۔

ج ا / م م (صلاح الدین زین، نئی دہلی)