1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارتی انتخابات: ووٹ، نوٹ اور وسکی

امتیاز احمد9 اپریل 2014

سائیکل رکشہ چلانے والے رامپال سنگھ ابھی تک اُس ’جمہوری ضیافت‘ کو نہیں بھول پائے ہیں، جو ان کی گزشتہ انتخابات سے پہلے کی گئی تھی۔ رامپال کو وسکی بھی ملی تھی، کھانا بھی اور نوٹ بھی۔

https://p.dw.com/p/1BeFb

رامپال سنگھ خوشی سے بتا رہا ہے کہ سن 2009ء کے انتخابات میں ایک پارٹی کی طرف سے ووٹ حاصل کرنے کے لیے اس کی خوب ’’مہمان نوازی‘‘ کی گئی تھی، ’’انہوں نے ہمیں واقعی بہت زبردست بریانی دی تھی اور ساتھ میں وسکی بھی۔‘‘

نیوز ایجنسی اے یف پی سے گفتگو کرتے ہوئے رامپال سنگھ کا کہنا تھا، ’’مجھے ایک بس کے ذریعے پنڈال میں لے جایا گیا، جہاں لوگوں سے پہلے ہی مہمانوں جیسا سلوک کیا جا رہا تھا۔ ہمیں پانچ پانچ سو روپے بھی دیے گئے اور بعد میں ہمیں ووٹ ڈالنے کے لیے کہا گیا۔‘‘

دہلی کی خاک آلود سڑکوں اور گلیوں میں سائیکل رکشہ چلانے والا رامپال سنگھ اس مرتبہ بھی انتخابات کے انعقاد پر خوش ہے، ’’مجھے یقین ہے کہ وہ اس مرتبہ بھی ہمیں ساتھ لے کر جائیں گے۔‘‘ دہلی میں انتخابات کے تیسرے مرحلے کا آغاز جمعرات سے ہو رہا ہے۔ مجموعی طور پر بھارت میں انتخابات کا انعقاد نو مرحلوں میں ہوگا۔

وسکی اور نوٹ

بھارت میں غیر قانونی شراب اور نقدی کے ذریعے ووٹروں پر اثرانداز ہونا ایک پرانا طریقہ ہے۔ بھارتی الیکشن کمیشن نے ووٹ خریدنے پر بھاری جرمانے کا اعلان کر رکھا ہے لیکن اس کے باوجود یہ معمول کی بات ہے۔

سوموار کے روز کمیشن نے اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ پانچ مارچ کو انتخابات کے اعلان کے بعد سے ملک بھر میں چھاپے مارتے ہوئے 32.5 ملین ڈالر نقدی اور 2.7 ملین لیٹر غیرقانونی شراب کو قبضے میں لے لیا گیا ہے۔ اندازوں کے مطابق بھارت میں 80 ووٹروں میں سے ایک ووٹ خریدنے کے لیے کوارٹر لیٹر کی ایک بوتل ہی کافی ہوتی ہے۔ اس مرتبہ انتخابات میں کل 814 ملین اہل ووٹر اپنا حق رائے دہی استعمال کریں گے۔

گزشتہ انتخابات میں ہزاروں لیٹر شراب واٹر ٹینکروں کے ذریعے ٹرانسپورٹ کی گئی تھی جب کہ نقد رقم خفیہ طور پر ایمبولینسوں میں رکھ کر تقسیم کی گئی تھی۔ الیکشن کمیشن حکام کے مطابق مارچ کے بعد سے 70 کلوگرام ہیروئن بھی برآمد کی گئی ہے۔

نئی دہلی میں انٹرنیشنل فاؤنڈیشن تھنک ٹینک سے وابستہ کے جی سُریشن کہتے ہیں کہ جس ملک کی 70 فیصد آبادی کی آمدنی روزانہ دو ڈالر سے بھی کم ہو، وہاں ووٹروں کو باآسانی خریدا جا سکتا ہے، ’’اس ملک میں لاکھوں ایسے افراد ہیں، جنہیں ایک وقت کے کھانے کے لیے بھی جدوجہد کرنا پڑتی ہے۔ الیکشن ان کے لیے کمائی کا دن ہوتا ہے۔ وفاداریوں کا انحصار پیش کی جانے والے ’آفر‘ پر ہوتا ہے۔‘‘

ووٹ دینے کا شکریہ

انتخابات سے پہلے ووٹروں کو شراب اور نقدی دینا غیر قانونی ہے، یہی وجہ ہے کہ اب بھارت میں اشیاء مفت تقسیم کرنے کا رجحان بڑھ رہا ہے تاکہ ووٹروں کی وفاداریاں تبدیل نہ ہوں۔

ایسے معاملات کی بے تاج ملکہ جنوبی ریاست تامل ناڈو کی چیف منسٹر جے للتا کو قرار دیا جاتا ہے۔ سن 2011ء کے ریاستی انتخابات جیتنے کے بعد ان کی طرف سے غریبوں کو سلائی مشینیں، مسالہ مکسرز اور یہاں تک کہ سونا بھی دیا گیا تھا۔ اپنے سن 2014ء کے منشور میں انہوں نے غریبوں کو گائیں، بکریاں، پنکھے اور بیس کلو چاول دینے کا بھی اعلان کر رکھا ہے۔

اسی طرح سن 2012ء کے ریاستی انتخابات سے پہلے اترپردیش کی سماج وادی پارٹی نے ہائی اسکولوں کے اسٹوڈنٹس کو لیپ ٹاپ فراہم کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ اس پارٹی نے بھی ریاستی انتخابات جیتے اور اب سن 2014ء کے انتخابات میں بھی یہ ریاست اہم کردار ادا کرے گی۔ پارلیمان کی 543 سیٹوں میں سے 80 اِسی ریاست کی ہیں۔ ریاستی حکومت کے ایک سینئر عہدیدار رادھے شیام لال کا لیپ ٹاپ پالیسی کے بارے میں کہنا ہے، ’’یہ ہماری پارٹی کی طرف سے ایک ماسٹر سٹروک تھا۔ آپ خریدنا تو بھول ہی جائیے، بہت سے طالب علموں نے تو کبھی لیپ ٹاپ پکڑ کر بھی نہیں دیکھا تھا۔‘‘

انٹرنیشنل فاؤنڈیشن تھنک ٹینک سے وابستہ کے جی سریشن کہتے ہیں ان تحائف کے باوجود بھی غیر متوقع نتائج سامنے آ سکتے ہیں۔ تامل ناڈو کی علاقائی جماعت ڈی ایم کے نے سن 2006ء کے انتخابات سے پہلے ووٹروں میں مفت کے ٹیلی وژن تقسیم کیے تھے۔ اس کے بعد اس جماعت کے منسٹر اے راجہ کا کرپشن اسکینڈل منظر عام پر آیا۔ لوگوں نے ٹی وی پر ہی اس جماعت کی کرپشن دیکھی اور پھر 2011ء میں اسے شکست کا سامنا کرنا پڑا۔