1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

چائلڈ پروٹیکشن ترمیمی بل 2022 ء منظور

فریداللہ خان، پشاور
1 جون 2022

خیبر پختونخوا میں بچوں پر تشدد کے کیسز میں اضافے کو روکنے کے لیے قوانین میں ترمیم کرکے ملوث افراد کے لیے سخت سزادینے کا قانون منظورکرلیا گیا ۔

https://p.dw.com/p/4C97D
Pakistan Kinderrechte
تصویر: Faridullah Khan/DW

صوبائی اسمبلی نے بچوں کے ساتھ جنسی تشدد کرنے جیسے گھناؤنے عمل میں ملوث افراد کو سزائے موت، عمر قید ،اور بھاری جرمانوں کے لیے ''چائلڈ پروٹیکشن ترمیمی بل 2022 ء ‘‘ منظور کرلیا ہے۔ مذکورہ بل کئی ماہ قبل متعارف کرایا گیا تھا جس پر قانونی ماہرین ، بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے اداروں کے اہلکار اور دیگر اہم شخصیات سے مشاورت کی گئی۔ ترمیمی بل صوبائی وزیر قانون فضل شکور نے ایوان میں پیش کیا ۔ جسے ایوان نے متفقہ طور پر منظور کیا ہے۔

سزائیں

مسودہ قانون کے مطابق بچوں کے ساتھ زیادتی کرنے میں ملوث افراد کو سزائے موت یا عمر قید کے ساتھ سات ملین روپے جرمانہ بھی ادا کرنا ہوگا۔ جنسی تشدد کے دوران فحش ویڈیو بنانے والے کو دس سال قید اور سات ملین روپے جرمانہ کیا جائیگا اسی طرح بچوں کی اسمگلنگ میں ملوث افراد کو عمر قید یا پچیس سال قید کے ساتھ ساتھ پانچ ملین روپے جرمانہ کیا جائیگا ۔ بچوں کیساتھ جنسی تشدد کے مقدمات کی سماعت ''تحفظ اطفال کی عدالتوں‘‘ میں کی جائے گی جبکہ مقدمہ کی سماعت ایک ماہ کے اندر مکمل کر لی جائیگی۔  ملوث فرد کو معاشرے سے الگ رکھا جائیگا اور اُسے کسی بھی پبلک پلیس پر جانے کی اجازت نہیں ہوگی ۔ اس کی قید کی مدت میں کسی قسم کی رعایت نہیں ہوگی۔ مجرم کا نام ''رجسٹر مجرمان جنسی جرائم ‘‘ میں درج کیا جائیگا اور ایسے فرد کو صوبے میں بچوں سے متعلق  کام کرنے والے کسی بھی ادارے میں ملازمت نہیں دی جائیگی ایسا کرنے والے ادارے کے سربراہ کو پانچ سال قید اور ایک کروڑ روپے جرمانہ ادا کرنا پڑے گا۔

جنسی استحصال کے شکار بچے کہاں جائیں؟

 چائلڈ پروٹیکشن کے لیے کام کرنے والے کیا کہتے ہیں ؟

خیبر پختونخوا میں تقریباً تین عشروں سے بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے سماجی کارکن عمران ٹکر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا '' دنیا بھر میں سخت قوانین موجود ہیں لیکن پھر بھی جرائم ہوتے رہتے ہیں پاکستان میں قتل کے سزائے موت کا قانون موجود ہے لیکن پھر بھی آئے دن قتل ہوتے ہیں ۔ قانون اچھا ہے لیکن اس قانون پر من وعن عمل درآمد کرنے والے اداروں کو مستحکم کرنے کی ضرورت ہے تمام ادارے جس میں پولیس، لیبارٹری، ڈاکٹر ،تحقیقاتی ٹیم اور جدید ترین سہولیات کی فراہمی وقت کا اہم تقاضا ہے۔‘‘ انکا مزید کہنا تھا کہ یہ قانون پہلے سے موجود تھا اب اس میں ترمیم کے زریعے سخت سزاؤں کے لیے ترمیم کی گئی لیکن ہم کہتے ہیں کہ معاشرے میں آگاہی کی اشد ضرورت ہے ۔ مسلسل اگاہی مہم کے زریعے ہی عوام میں شعور اجاگر کیا جاسکتا ہے۔ وہ کہتے ہیں،''ہم یہ نہیں کہتے کہ قانون نہ ہوں اور سزائیں نہ ہوں ہم کہتے ہیں کہ قانون بھی ہوں سزائیں بھی ہوں لیکن اس قانون کے ماتحت ذمہ دار اداروں کو مضبوط اور مربوط کیا جائے‘‘۔

Pakistan Festnahmen im Skandal um Kindesmissbrauch
پاکستان میں قانون موجود ہے مگر عمل درآمد قانونی طور پر نہیں ہوتاتصویر: Getty Images/AFP/A. Ali

قانونی ماہرین کی رائے

بچوں اور خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنیوالی خاتون قانون دان خوشنود ایڈوکیٹ نے رابطہ کرنے پر ڈی ڈبلیو کو بیان دیتے ہوئے کہا،

'' اس میں کوئی شک نہیں کہ موجودہ ترمیم میں سخت سزائیں رکھی گئیں ہیں۔ مکمل طور پر خاتمہ تو ممکن نہیں۔ ہمارے ملک میں قوانین موجود ہیں لیکن سزا میں اضافے سے کسی حد تک کمی آئیگی لیکن جب تک وکلا، ڈاکٹرز ،پولیس اور دیگر اداروں کو مستحکم نہیں کیا جاتا اور تمام اسٹیک ہولڈرز اور اداروں کو مضبوط نہیں کیا جاتا انکی تربیت نہیں کی جاتی تو اسطرح کے جرائم کا مکمل خاتمہ مشکل ہے اس میں سب سے اہم آگہی کی ضرورت ہے اورساتھ ہی جب تک جوئینائل کے قوانین اور متعلقہ اداروں کو مستحکم نہیں کیا جاتا بچوں پر تشدد اور اس سے وابستہ جرائم میں کمی نہیں آسکتی ‘‘۔

پختونخوا میں بچوں پر جنسی تشدد میں مسلسل اضافہ

گزشتہ سال خیبر پختونخوامیں بچوں پر جنسی تشدد کے تین سو تیس کیسز رجسٹرڈ ہوئے تھے جبکہ صوبے کی مخصوص روایات کی وجہ سے زیادہ تر لوگ بدنامی کے خوف سے پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے پاس جانے سے اجتناب برتتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق بچوں پر جنسی تشدد کے زیادہ تر کیسز میں انکے قریبی رشتہ دار یا گلی محلے کے لوگ ملوث ہوتے ہیں۔

فون میں ’چائلڈ پروٹیکشن‘ سے نجی زندگی کو خطرہ نہیں، ایپل

وسائل کا فقدان

سال 2010 میں ''چائلڈ پروٹیکشن ‘‘ کا قانون بنایا گیا تاہم وسائل کی کمی کی وجہ سے ذیلی ادارے مستحکم نہ ہوسکے صوبے کے صرف آٹھ اضلاع میں چائلڈ کورٹس بنائی گئیں جبکہ اب تک صرف بارہ چائلڈ پروٹیکشن یونٹ بن سکے۔ صوبے میں ڈی این اے ٹسٹ کی کوئی سہولت نہیں ہے جبکہ متعلقہ اداروں کی استعداد بڑھانے پر بھی کوئی توجہ نہیں دی گئی۔

ضلع نوشہرہ میں آٹھ سالہ بچی کے ساتھ جنسی تشدد اور قتل

خیبر پختونخوا کے ضلع نوشہرہ میں دو سال قبل آٹھ سالہ بچی کو جنسی زیادتی کے بعد قتل کر دیا گیا تھا۔ بچی کے والدین نے دو افراد پر دعویٰ کیا جنہیں پولیس نے گرفتار کیا وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا محمود خان نے متاثرہ خاندان کو انصاف فراہم کرنے کے لیے قوانین میں ترمیم کا وعدہ کیا تھا اس دوران پہلے سے موجود چائلڈ پروٹیکشن کے قانون کو ایوان میں لانے سے پہلے ترامیم پر مشاورت کی گئی۔

اور کتنی زینبیں سماجی، سیاسی زبوں حالی کی بھینٹ چڑھیں گی؟