1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بچوں کی جانیں بچانے والے پولیو ورکرز کی جانیں خطرے میں

4 نومبر 2024

پاکستان میں عسکریت پسندوں کے حملے اور غلط معلومات سے پیدا ہونے والے شکوک و شبہات جیسی وجوہات، پولیو کے خاتمے میں رکاوٹ کا باعث بن رہی ہیں۔ تاہم پولیو کے قطرے پلانے والی ٹیمیں اس مرض کے خلاف مستقل جدوجہد کر رہی ہیں۔

https://p.dw.com/p/4makL
Pakistan Lahore | Impfung in Schule
پوليو کے قطرے پلانے والے رضاکاروں اور ان کی حفاظت پر مامور محافظوں کو اکثر پر تشدد حملوں کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ تصویر: Arif Ali/AFP/Getty Images

پاکستان میں پولیو کے کیسز میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ رواں برس اب تک 45 کیسز رجسٹر ہو چکے ہیں، جبکہ سال 2023 میں یہ تعداد 6 اور سال 2021 میں صرف ایک تھی۔ پولیو سے زیادہ تر پانچ سال سے کم عمر کے بچے متاثر ہوتے ہیں اور بعض اوقات یہ بیماری زندگی بھر کی معذوری کا باعث بن جاتی ہے۔

پولیو جیسی بیماری کو صرف چند قطروں کے استعمال سے روکا جا سکتا ہے۔ لیکن پاکستان کے دیہی علاقوں میں ہیلتھ ورکرز دوسروں کو پولیو سے بچاتے بچاتے اپنی جان خطرے میں ڈال دیتے ہیں۔

گزشتہ ہفتے پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا میں ہونے والے ایک بم دھماکے میں پانچ بچوں سمیت سات افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ اس حملے میں ویکسین ورکرز کی حفاظت پہ مامور پولیس اہلکاروں کو نشانہ بنایا گیا تھا۔ اس کے علاوہ چند روز قبل، عسکریت پسندوں نے دو پولیس اہلکاروں کو گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔

Pakistan Peshawar | Krankenhaus nach Anschlag auf Polizisten in der Region Khyber-Pakhtunkhwa
نامعلوم مسلح افراد نے صوبہ خیبرپختونخوا کے علاقے اورکزئی کے ایک ہیلتھ یونٹ کے آفس کو نشانہ بنایا اور جب یہ حملہ ہوا، تو پولیو کے قطرے پلانے والی کئی اور ٹیمیں بھی وہاں جمع تھیں۔تصویر: Hussain Ali/Anadolu/picture alliance

پاکستان: پولیو ٹیم پر حملے میں پولیس اہلکار ہلاک

پاکستان کے شمالی مغربی علاقے پنم ڈیہری سے تعلق رکھنے والی 28 سالہ زینب سلطان ایک ہیلتھ ورکر ہیں۔ ان کا کہنا تھا، "جب بھی میں سنتی ہوں کہ پولیو کے قطرے پلانے والی ٹیم پہ حملہ کیا گیا ہے تو مجھے بہت دکھ ہوتا ہے۔ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اپنا کام جاری رکھیں۔ ہمارا کام لوگو‍ں کو معذوری سے بچانا اور ایک صحت مند معاشرہ بنانا ہے۔"

پاکستان میں پولیو کے بڑھتے کیسز کا افغانستان سے کیا تعلق ہے؟

افغانستان میں 2021ء میں طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد سے ہی پاکستان میں پولیو ورکرز پر بالخصوص حملوں میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ پاکستانی حکام کا دعویٰ ہے کہ ملک دشمن عناصر سرحد پار سے بدامنی پھیلانے کی کوششیں کر رہے ہیں۔

پاکستانی دارالحکومت میں 16 سال بعد پولیو کا پہلا کیس

'پولیو کے قطروں میں سور کا گوشت شامل‘پاکستانی علماء کا جھوٹا دعویٰ

ماضی میں پاکستان کے علماء نے ایک جھوٹا دعویٰ کیا تھا جس کے مطابق پولیو کی ویکسین میں خنزیرکا گوشت اور الکوحل شامل ہوتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ تمام مسلمان اپنے بچو‍ں کو پولیو کے قطرے پلانے سے اجتناب کریں۔

امریکی سینٹرل انٹیلی جنس ایجنسی (سی آئی اے) کی جانب سے سن 2011 میں اسامہ بن لادن کا سراغ لگانے کے لیے پاکستان میں چلائی جانے والی جعلی ویکسینیشن مہم نے اس بے اعتمادی کو مزید بڑھا دیا تھا۔

Pakistan | Polio Impfung
پاکستان میں پولیو کے کیسزز میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔تصویر: K.M. Chaudary/AP Photo/picture alliance

پاکستان کے رہائشی احسان اللہ نے بتایا کہ ان کے علاقے میں تقریباﹰ آدھے سے زیادہ والدین ابتدائی طور پر پولیو ویکسین کے خلاف مزاحمت کر رہے تھے کیوں کہ ان کا ماننا تھا کہ یہ مغرب کی ایک چال ہے۔

پاکستان میں ماضی میں پولیو ویکسین پر عدم اعتماد کا الزام عائد کیے جانے کے بعد کچھ مذہبی رہنما اب والدین کو پولیو ویکسین کے لیے قائل کرنے کی مہم چلا رہے ہیں۔ امام طیب قریشی نامی ایک مبلغ کا کہنا تھا کہ پاکستان کے تمام بڑے دینی مدارس اور علماء نے پولیو ویکسین سے متعلق افواہوں کی تردید کی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ پولیو کے قطرے پلانے والی ٹیموں پر حملہ کرنے والوں کا اسلام یا انسانیت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

      

ز ع / ر ب (اے ایف پی)