بون: ماحولیاتی کانفرنس کا آغاز
29 مارچ 2009گیارہ روز تک جاری رہنے والی اس کانفرنس کے تمام شرکاء کی دلچسپی کا محور امریکی صدر باراک اوباما کی نئی انتظامیہ اور ماحولیاتی تبدیلی کے بارے میں ان کی پالیسی ہے۔ ایک سو نوّے ممالک سن دو ہزار بارہ تک ماحولیاتی تبدیلی کے مضر اثرات سے نمٹنے کے لیے سبز مکانی گیسوں کے اخراج میں کمی کے حوالے سے متفقہ حکمتِ عملی احتیار کرنے کے لیے کوششیں کر رہے ہیں۔ سن دو ہزار بارہ میں مضر سبز مکانی گیسوں سے متعلق کیوٹو پروٹوکول اختتام پزیر ہورہا ہے اور ایک نئے معاہدے کی ضرورت محسوس کی جا رہی ہے۔ واضح رہے کہ دسمبر میں ڈینمارک کے شہر کوپن ہیگن میں ماحولیاتی تبدیلی سے متعلق سربراہی اجلاس ہوگا۔
واضح رہے کہ سابق امریکی صدر جارج ڈبلیو بش کی انتظامیہ کیوٹو پروٹوکول کی حامی نہیں تھی اور ماحولیاتی تبدیلی سے متعلق اس کی پالیسی کو ناقدین رجعت پسندانہ قرار دیتے تھے۔ امریکی صدر باراک اوباما انتخابی مہم کے دوران ماحولیاتی تبدیلی کو انتہائی اہم موضوع قرار دیتے رہے اور اب ماحولیاتی تبدیلی کے ماہرین کی توجّہ کا مرکز اس ضمن میں باراک اوباما کی پالیسی ہے۔
بون میں شروع ہونے والی کانفرنس کے ساتھ ہی واشنگٹن میں ہفتے کے روز امریکی صدر اوباما نے ماحولیاتی تبدیلی کے موضوع پر کئی اجلاسوں کا سلسلہ شروع کردیا۔ وائٹ ہاؤس کے مطابق ماحولیاتی تبدیلی پرایک ’میجر اکانومیز فورم‘ تشکیل دیا گیا ہے جس کا مقصد اس حوالے سے سیاسی قیادت پیدا کرنا ہے۔ مذکورہ فورم میں چین، بھارت اور برازیل سمیت سترہ ممالک شامل ہیں اور یہ سابق امریکی صدر جارج بش کے مشورے پر تشکیل دیا گیا تھا۔ باراک اوباما کے صدر بننے کے بعد اب اس حوالے سے عملی اقدامات کی امید ہوچلی ہے۔
باراک اوباما کی ماحولیاتی ٹیم کے سربراہ ٹوڈ اسٹیرن بون میں جاری اس کانفرنس میں شرکت کر رہے ہیں اور اس حوالے سے ان کا ایک اہم بیان بھی متوقع ہے جس سے باراک اوباما کی ماحولیات سے متعلق ترجیخات کا تعین کیا جاسکے گا۔
انتخابی مہم کے دوران باراک اوباما نے کاربن ڈائی آکسائڈ کے اخراج میں دو ہزار پچاس تک یورپی یونین کی طرز پر اسی فیصد تک کی کمی کا وعدہ کیا تھا تاہم اب ان کا کہنا ہے کہ سن دو ہزار بیس تک اس حوالے سے امریکہ انیس سو نوّے کی سطح تک پہنچنے کی کوشش کرے گا۔ یورپی یونین دو ہزار بیس تک کاربن ڈائی آکسائڈ کے اخراج بیس تا تیس فیصد کمی کرنے کا اعلان کرچکی ہے۔
اس حوالے سے ابھرتی ہوئی معیشتوں، بھارت، چین اور برازیل کا کردار بھی انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔