بن لادن کی ہلاکت کے بعد پاکستانی حکومت کے لیے ندامت کا مرحلہ
3 مئی 2011اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد پاکستانی میڈیا پر بعض مبصرین کا یہ بھی کہنا تھا کہ امریکی حکومت کی جانب سے بن لادن کی پاکستانی میں موجودگی کے معاملے پر جلد ناراضگی کا اظہار سامنے آ سکتا ہے۔ اس ناراضگی کے اظہار کی وجہ پاکستانی حکام کا مسلسل اس بات سے انکار کرنا تھا کہ القاعدہ کی مرکزی قیادت پاکستان میں سرے سے موجود ہی نہیں۔ اب بن لادن کو ڈھونڈ کر امریکی کمانڈوز کے ایکشن میں ہلاکت کے بعد پاکستانی حکومت کے سابقہ بیانات کی اساس کیا ہو گی، یہ اہم ہے۔ تجزیہ کار حیرانی کا اظہار کر رہے ہیں کہ بن لادن کس طرح مرکزی فوجی نوعیت کے علاقے میں حکام اور سکیورٹی اداروں کی نگاہ سے اوجھل رہے تھے۔
بن لادن کی پاکستان ملٹری اکیڈمی کے قریب موجودگی پر عوام اور ناقدین انگلیاں اٹھا رہے ہیں۔ بعض کا خیال ہے کہ بن لادن کی پاکستان میں موجودگی کی وجہ سے ایک بار پھرفوج اور خفیہ اداروں کے کردار کا سخت تنقیدی جائزہ لیا جا سکتا ہے اوراگلے دنوں میں ان کے مجموعی تشخص کو شدید ٹھیس پہنچ سکتی ہے۔
پاکستان کے معتبر انگریزی روزنامے دی نیوز نے اپنے اداریے میں بن لادن کی موجودگی اور اہم خفیہ اداروں کی طرف سے ان کا سراغ لگانے میں ناکامی کو حیران کن قرار دیا ہے۔ ایک اور اخبار ڈیلی ٹائمز کا لکھنا ہے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ بن لادن پاکستانی اداروں کے متحرک ہونے کے باوجو کئی سال تک آسانی سے روپوش رہے اور یہی امریکی حکام کو سمجھانا خاصا مشکل ہو گا۔
معروف روزنامے ڈان نے بھی اس مناسبت سے تحریر کیا ہے کہ بن لادن کے خلاف کمانڈو ایکشن میں پاکستانی سکیورٹی فورسز کی عدم شمولیت سے فوج اور خفیہ اداروں کے تعاون پر بھی شک کیا جا سکتا ہے۔ پاکستانی میڈیا امریکی کمانڈوز کے ایکشن پر بھی سوال اٹھا رہا ہے۔ امریکہ میں پاکستان کے سفیر نے کہا ہے کہ اس بات کی انکوائری کی جائے گی کہ بن لادن کا سراغ خود پاکستانی خفیہ ادارے کیوں نہ لگا سکے۔
دوسری جانب پاکستانی صدر زرداری کی جانب سے امریکی روزنامے واشنگٹن پوسٹ میں ایک بیان شائع ہوا ہے جس میں انہوں نے واضح کیا ہے کہ بن لادن کی ہلاکت کا باعث بننے والے امریکی آپریشن میں پاکستانی سکیورٹی فورسز کی کوئی شمولیت نہیں تھی۔
پاکستان میں پرائیویٹ ٹیلی وژن چینلز پر وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی اور دوسرے حکومتی اہلکاروں کے ان سابقہ بیانات کو مختلف اوقات اور پروگراموں میں بار بارنشر کیا گیا ہے، جن میں یہ تمام افراد کہتے رہے ہیں کہ بن لادن پاکستان میں قطعاً موجود نہیں۔ سن 2009 میں امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن نے بھی القاعدہ کی مرکزی قیادت کی گرفتاری میں پاکستانی حکام کی طرف سے عدم تعاون پر تنقید کی تھی۔
رپورٹ: عابد حسین ⁄ خبر رساں ادارے
ادارت: مقبول ملک