1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بن لادن کو میں نے ہلاک کیا، سابقہ امریکی کمانڈو رابرٹ او نیل

عاطف بلوچ7 نومبر 2014

دہشت گرد گروہ القاعدہ کے سابق سربراہ اسامہ بن لادن کو ہلاک کرنے والے سابق امریکی فوجی نے اپنی شناخت ظاہر کر دی ہے۔ رابرٹ او نیل نامی یہ سابق فوجی قبل ازیں عراق اور افغانستان میں بھی تعینات رہ چکا تھا۔

https://p.dw.com/p/1Digz
تصویر: AP

خبر رساں ادارے اے ایف پی نے بتایا ہے کہ پاکستانی شہر ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کو ہلاک کرنے والے سابق امریکی فوجی رابرٹ او نیل نے عوامی سطح پر اپنی شناخت ظاہر کرتے ہوئے جمعرات کے دن واشنگٹن پوسٹ کو ایک انٹرویو دیا ہے۔ امریکی اخبار سے گفتگو کرتے ہوئے اڑتیس سالہ او نیل نے کہا کہ اس نے 2011ء ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کے گھر پر کارروائی کے دوران اس کے ماتھے پر گولی ماری تھی، جس کے نتیجے میں وہ ہلاک ہو گیا تھا۔

یہ امر اہم ہے کہ او نیل کی کہانی ان کے ایک ساتھی کمانڈو میٹ بیسونیٹ کی طرف سے بیان کی گئی معلومات کے متضاد ہیں، جس میں بیسونیٹ نے دعویٰ کیا تھا کہ مہلک گولی انہوں نے چلائی تھی۔

سابقہ کمانڈو او نیل کے بقول اس نے عوامی سطح پر سامنے آنے کا فیصلہ اس لیے کیا کیونکہ سابقہ امریکی فوجیوں کے ایک گروپ SOFREP نے اس کی شناخت عام کر دی تھی۔ او نیل کی طرف سے اس مطالبے کے بعد کہ اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے مشن میں اس کا کردار عام کیا جائے، SOFREP نے اس کی شناخت عام کی تھی۔

USA Elitetruppe Navy SEALS Kampftraining Hubschrauber
اسامہ بن لادن ایبٹ آباد میں امریکی کمانڈوز کی کارروائی میں مارا گیا تھاتصویر: picture alliance/abaca

امریکی اخبار کے مطابق اس مشن میں شریک دو دیگر کمانڈوز نے بھی تصدیق کی ہے کہ اسامہ بن لادن کو ہلاک کرنے والا او نیل ہی تھا۔ رابرٹ او نیل فوکس نیٹ ورک کی طرف سے بنائے جانے والی ایک دستاویزی فلم میں بھی شریک ہوئے ہیں، جو آئندہ ہفتے نشر کی جائے گی۔

واشنگٹن پوسٹ سے گفتگو کرتے ہوئے کرتے ہوئے رابرٹ او نیل نے کہا کہ اسامہ بن لادن پر اس کے دو دیگر ساتھی کمانڈوز نے بھی فائر کیا تھا۔ اس سابق کمانڈو نے بتایا کہ جب ان کی ٹیم اسامہ بن لادن کے کمرے میں داخل ہوئی، تو وہ دوسرے نمبر پر تھا۔ اس نے بتایا کہ اس سے آگے موجود کمانڈو کی طرف سے فائر کیا گیا پہلا فائر نشانے پر نہ لگا، ’’میں اپنے ساتھی کمانڈو سے آگے بڑھا۔ اسامہ بن لادن میرے سامنے تھا۔ اس نے ایک خاتون کو ڈھال بنایا ہوا تھا۔‘‘

رابرٹ او نیل نے اس واقعے کو بیان کرتے ہوئے مزید کہا کہ وہ تاریکی کی باوجود اسامہ بن لادن کو پہچان سکتا تھا کیونکہ اس نے اندھیرے میں دیکھنے والے خصوصی عینک پہن رکھی تھی۔ او نیل کےمطابق جب اس نے فائر کیا تو واضح ہو گیا تھا کہ اسامہ مارا گیا ہے کیونکہ اس فائر کے نتیجے میں اس کا سر کھل گیا تھا۔

رابرٹ او نیل اسامہ بن لادن کے خلاف کارروائی کرنے سے قبل پندرہ برس تک بطور فوجی اپنی ذمہ درایاں نبھا چکے تھے۔ اس کارروائی کے وقت وہ ایلیٹ سیل ٹیم سکس یونٹ میں خدمات سر انجام دے رہے تھے۔

رابرٹ او نیل کے بقول وہ ایک عرصے سے اس کشمکش میں مبتلا تھے کہ وہ عوامی سطح پر سامنے آئیں یا نہ۔ ان کے بقول بلآخر انہوں نے خود کو دنیا کے سامنے پیش کرنے کا فیصلہ اس لیے کیا کیونکہ انہیں ایسے تحفظات لاحق تھے کہ کوئی اور ان کے بارے میں حقائق عام کر دے گا۔ او نیل کے مطابق قبل ازیں فوج کے متعدد حلقوں اور کانگریس کے کچھ ارکان کو بھی معلوم تھا کہ اسامہ بن لادن کو ہلاک کرنے والا وہی ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ دو نیوز اداروں کو بھی اس حقیقت کا علم تھا۔