1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بنگلہ دیش میں پارلیمانی انتخابات، اپوزیشن کو دھاندلی کا خدشہ

29 دسمبر 2018

اتوار تیس دسمبر بنگلہ دیش میں عام انتخابات کا دن ہے۔ حسینہ شیخ تیسری مدتِ کے لیے وزیراعظم بننے کے لیے پرامید ہیں۔ ان کی مرکزی حریف خالدہ ضیاء کرپشن الزام کے تحت سزائے قید بھگت رہی ہیں۔

https://p.dw.com/p/3AlaI
Bangladesch Wahl & Wahlkampf in Dhaka
تصویر: DW/H.U. Rashid Swapan

اتوار تیس دسمبر کے انتخابات کے حوالے سے اپوزیشن جماعتٰوں کو خدشہ لاحق ہے کہ حکمران سیاسی جماعت اپنی کامیابی کے لیے منفی ہتھکنڈوں کو استعمال کرنے سے گریز نہیں کرے گی۔  حکومت مخالف سیاسی اتحاد کے رہنما کمال حسین نے اس مناسبت سے ہفتہ انتیس دسمبر کو ایک پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ سب سے بڑا خوف اتوار کے انتخابات کے حوالے سے پرتشدد حالات کا پیدا ہونا ہے اور دوسرا ووٹ ڈالنے کے عمل کو سازباز سے متاثر کیا جانا ہے۔

کمال حسین نے اپنی پریس کانفرنس میں کہا کہ حسینہ شیخ کی سیاسی جماعت عوامی لیگ کی قیادت میں قائم اتحاد نے پولنگ اسٹیشنوں پر متعین عملے کو خاص ہدایت کی ہے کہ وہ بیلٹ پیپرز پر مہریں لگا کر بیلٹ بکسوں کو بھریں، تاکہ بڑی کامیابی ممکن ہو سکے۔ اس مناسبت سے عوامی لیگ کی جانب سے کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔

کمال حسین کی جونو فورم نامی سیاسی جماعت، اس وقت بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کی سربراہ اور سابق وزیراعظم خالدہ ضیا کی عدم موجودگی میں اپوزیشن کو قیادت فراہم کیے ہوئے ہے۔

Bangladesch Dhaka Polizei sichert Vorbereitungen für Parlamentswahl
بنگلہ دیش میں پارلیمانی انتخابات سے قبل ممکنہ تشدد کے پیش نظر سکیورٹی سخت کر دی گئی ہےتصویر: Imago/Zumapress/K. Salahuddin Razu

کمال حسین خود بھی اپوزیشن کے انتخابی اتحاد ’جاتیا اوکیا فرنٹ‘ کی قیادت سنبھالے ہوئے ہیں۔ حسین نے اپنے حامیوں کو تلقین کی ہے کہ وہ الیکشن کے دن اپنا حق رائے دہی ہر ممکن انداز میں استعمال کریں۔

بنگلہ دیش میں پارلیمانی انتخابات سے قبل ممکنہ تشدد کے پیش نظر سکیورٹی سخت کر دی گئی ہے۔ خبر رساں اداروں کے مطابق آج ہفتہ 29 دسمبر کو ملک بھر میں چھ لاکھ سکیورٹی اہلکار تعینات کر دیے گئے ہیں۔ توقع ہے کہ وزیر اعظم شیخ حسینہ کی عوامی لیگ یہ انتخابات جیت لے گی۔

انتخابی مہم کے دوران حکمران عوامی لیگ اور مرکزی اپوزیشن بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کے حامیوں کے مابین ہونے والی جھڑپوں کے نتیجے میں تیرہ افراد ہلاک جبکہ ہزاروں زخمی ہوئے۔ دوسری جانب اپوزیشن کا الزام ہے کہ اس کے خلاف ریاستی کریک ڈاؤن کیا جا رہا ہے تاہم ڈھاکا حکومت اسے پر زور انداز میں مسترد کرتی ہے۔