1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بنگلہ دیش: اسلام پسندوں اور پولیس کے درمیان جھڑپیں جاری، 22 ہلاک

6 مئی 2013

بنگلہ دیش میں توہین اسلام سے متعلق نئے قانون کے نفاذ کے لیے اسلام پسندوں نے اتوار کے روز ڈھاکہ میں بہت بڑا مظاہرہ کیا تھا۔ یہ مظاہرہ آج پیر کی صبح میں پھر سے شروع ہو گیا ہے۔ اب تک بائیس افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

https://p.dw.com/p/18SeE
تصویر: Reuters

بنگلہ دیش کے دارالحکومت میں اتوار کے روز سے شروع ہونے والی جھڑپوں کا سلسلہ آج پیر کے روز بھی جاری ہے۔ پولیس اور طبی ذرائع نے کُل ہلاکتوں کی تعداد 22 بتائی ہے۔ ان میں ایک پولیس اہلکار بھی شامل ہے۔ ہسپتال ذرائع کے مطابق سینکڑوں زخمی ہیں۔ ڈھاکہ پولیس کے ترجمان مسعود الرحمان کے مطابق پیر کی صبح تقریباً ستر ہزار افراد نے مظاہرے میں شرکت کی۔ یہ مظاہرین دارالحکومت کے مرکز میں رات بھر خیمہ زن تھے۔ پیر کی صبح بھی مظاہرین نے پولیس پتھراؤ کیا۔ پولیس کے جوابی ایکشن میں ہلاکتیں ہوئیں۔

اتوار کی دوپہر میں بنگلہ دیشی دارالحکومت ڈھاکہ میں ہزاروں مظاہرین نے توہین اسلام سے متعلق نیا قانون منظور کرنے کی حمایت میں شدید مظاہرے کا اہتمام کیا۔ مظاہرین نے سڑکوں کو بند کر دیا۔ اس دوران بپھرے ہوئے انتہا پسندوں نے پولیس کے ساتھ مڈبھیڑ سے بھی گریز نہیں کیا۔ ان مظاہرین کے ہمراہ ایک غیر معروف مذہبی تنظیم حفاظت اسلام کے سرگرم کارکن بھی شریک تھے۔

Blasphemie Gesetz Ausschreitungen Dhaka
جھڑپوں کے دوران مظاہرین نے پولیس شدید پتھراؤ بھی کیا۔تصویر: Reuters

مظاہرے کے دوران شرکاء اللہ اکبر کے نعرے لگاتے رہے۔ مظاہرین کا کہنا تھا کہ ان کا ایک نکاتی مطالبہ ہے کہ لادین پسندوں کو پھانسی دی جائے۔ شرکاء نے واضح طور پر کہا کہ اس وقت بنگلہ دیش پر لادین حکومت قائم ہے اور اس کا اللہ پر یقین نہیں ہے اور وہ اپنے دین کی حفاظت کے لیے مظاہرے میں شریک ہیں۔

مقامی پولیس کے سربراہ اسماعیل حسین کے مطابق تقریباً ایک لاکھ افراد نے اس سڑک کو بند کر دیا جو ٹونگی کے قصبے کو جاتی تھی۔ مظاہرین نے دوسرے شہروں کو جانے والی بڑی شاہراؤں کو بھی رکاوٹیں کھڑی کر کے بند کر دیا تھا۔ پولیس کی ایک اور رپورٹ کے مطابق تقریباً دو لاکھ افراد مارچ کرتے ہوئے وسطی ڈھاکہ میں واقع مرکزی موتی جھیل مسجد تک پہنچے۔ اسی بڑی مسجد کے سامنے پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپیں شروع ہوئیں۔ جھڑپوں کے دوران چھوٹے چھوٹے دھواں دار دھماکوں کی آوازیں بھی سنی گئیں۔

پولیس کے مطابق مظاہرین کو روکنے اور انہیں منتشر کرنے کے لیے پولیس کارروائی کرنی پڑی۔ جھڑپوں کے دوران مظاہرین نے پولیس شدید پتھراؤ بھی کیا۔ اپنی حفاظت کے تناظر میں پولیس نے آنسو گیس کے شیلز پھینکنے کے علاوہ لاٹھی چارج بھی کیا۔ پولیس کے مطابق مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے ربر کی گولیاں بھی چلائی گئی تھیں۔

Blasphemie Gesetz Ausschreitungen Dhaka
مذہبی تنظیم حفاظت اسلام کے سرگرم کارکن ایک صحافی پر حملہ کرتے ہوئےتصویر: Reuters

ایک پولیس اہلکار مزمل حق کے مطابق مظاہرے میں ہلاک ہونے والے تین افراد کی لاشیں ڈھاکہ میڈیکل کالچ پہنچائی گئیں جبکہ بقیہ سات کی نعشوں کو نجی طبی مراکز تک پہنچایا گیا۔ ڈھاکہ کے البراکہ ہسپتال میں چھ لاشیں لائی گئیں۔ البراکہ ہسپتال کے انتظامی افسر شاہ جہاں سراج کے مطابق ان کے ہسپتال میں لائی گئی تمام چھ لاشوں کے سروں میں گولیاں لگی ہوئی تھیں۔ پولیس کے مؤقف کے برعکس مقامی میڈیا اور لوگوں کے مطابق پولیس نے مظاہرین پر گولیاں بھی برسائی تھیں۔ اسلامی بینک ہسپتال کے ایک ڈاکٹر ایم عدنان کے مطابق ان کے ہسپتال کی دو برانچوں میں تین سو زخمیوں کو لایا گیا۔

عینی شاہدین کے مطابق جھڑپوں کا آغاز پولیس کی جانب سے ہوا جب اس نے ڈنڈا بردار مظاہرین کو منتشر کرنے کی کارروائی شروع کی۔ عینی شاہدین کے مطابق مظاہرے میں شرکت کے لیے ہزاروں دیہاتی بھی دوردراز کے دیہات اور قصبات سے پہنچے تھے۔ پرتشدد مظاہرے کے دوران مظاہرین نے ایک پولیس تھانے کو آگ لگانے سے بھی گریز نہیں کیا۔ مظاہرین نے بے شمار دوسری گاڑیوں اور دوکانوں کو بھی نذرِ آتش کر دیا۔ ایک پولیس اہلکار کو مظاہرین نے زدوکوب کیا اور اس کی حالت نازک بتائی گئی ہے۔

(ah/sks(AFP