1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بنڑ کی رقص و موسیقی پر طالبان کے بعد اب کورونا کے سیاہ بادل

11 مئی 2020

کورونا وائرس نے جہاں پاکستان میں معاشرے کے ہر طبقے کو بُری طرح متاثر کیا ہے وہیں بنڑ کی طوائفوں وگلوکاراؤں کی سرگرمیوں پر بھی گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔ مرض کے خوف سے رقص و موسیقی کے شائقین اب اس محلےکا رخ نہیں کررہے۔

https://p.dw.com/p/3c1kq
Pakistan Stadt Swat Sängerin Nello
تصویر: Syed Anwar Shah

وادی سوات نہ صرف اپنے قدرتی حسن کی وجہ سے اندرون اور بیرون ملک سیاحوں کے لیے انوکھی کشش رکھتا ہے بلکہ اس علاقے کی ثقافت و تہذیب بھی بہت دلچسپ اور دلخوش کن ہے۔ خاص طور سے اس کے مرکزی شہر مینگورہ کے قلب میں واقعہ محلہ بنڑ کی ثقافتی روایات منفرد اور تاریخی حیثیت کی حامل ہیں۔

سن انیس سوانہتر سے قبل بنڑ میں طوائفوں کے تقریباً چھتیس گھرانے آباد تھے جو رفتہ رفتہ کم ہوتے چلے گئے۔ مقامی لوگوں کی پشاور جیسے بڑے شہروں کی طرف منتقلی کی وجہ سے اب بنڑ م‍یں بیس سے تیس ایسے خاندان رہ گئے ہیں۔

سوات کے محلے بنڑ کو پشتون ثقافتی ورثے کو زندہ رکھنے کا اعزاز حاصل ہے۔  یہاں پشتو موسیقی کے بہت سے  نامور فنکاروں نے آنکھ کھولی جیسے کہ نازیہ اقبال، غزالہ جاوید جیسی گلوکاراؤں نے غیر معمولی شہرت پائی۔

Pakistan Stadt Swat
سوات کا ثقافتی محلہ بنڑ ویران پڑا ہے۔تصویر: Syed Anwar Shah

انتہا پسندی کا شکار

طالبان نے سوات میں جہاں عام زندگی کو بے رنگ کردیا وہیں خواتین فنکاراؤں کے ساتھ ظلم و تشدد کا جو بازار گرم کیا اُس نے سوات کی  حسین وادی کو بھیانک بنا دیا۔ محلہ بنڑ کی مشہور رقاصہ شبانہ کو خونی چوک  لاکر گولیاں مار کر ہلاک کیا گیا جس کے بعد اس علاقے سے تمام فنکار مردان یا پشاور جیسے نسبتاً محفوظ علاقوں کی طرف ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے۔ اندرون ملک بے گھر ہونے والے ایک خاندان کی ایک خوبصورت خاتون اور خوش آواز غزالہ جاوید کی مثال بھی موجود ہے جنہیں 2012ء میں ان کے شوہر نے ان کے والد سمیت گولیاں مار کر ہلاک کردیا تھا۔

 

بنڑ کی ثقافت

پشتون معاشرہ ویسے تو کافی قدامت پسند سمجھا جاتا ہے۔ اس کے باوجود حیران کن بات یہ ہے کہ سوات میں طوائفوں، گلوکاراؤں و فنکاراؤں کی ایک پوری آبادی ہے، جہاں نہ صرف گھروں میں موسیقی کی محفلیں سجتی ہیں بلکہ ان فنکاروں کو دیگرعلاقوں میں شادی بیاہ  کی تقاریب میں بھی بلا یا جاتا ہے۔

سوات میں طالبان کی پسپائی اور علاقے میں امن واستحکام کی بحالی کے بعد اس علاقے میں پھر سے ساز گونجنے لگے۔ گلوکاری اور رقاصی کی محافلیں سجنے لگیں۔ رقاصہ ؤں کے محلے بنڑ کی رونقیں بحال ہو گئیں۔

Pakistan Stadt Swat
ان مکانات سے کبھی گھنگھروؤں اور طبلہ سارنگی کی آوازیں آتی تھیں۔تصویر: Syed Anwar Shah

ثقافت اب کورونا کی  زد میں

کورونا وائرس کے خطرات نے جہاں پاکستان میں معاشرے کے ہر طبقے کو بُری طرح متاثر کیا ہے وہیں بنڑ کی طوائفوں وگلوکاراؤں  کی سرگرمیوں پر بھی گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔ کیونکہ اس وبائی مرض کے خوف سے رقص و موسیقی کے شائقین اب اس محلےکا رخ نہیں کررہے۔

اس محلے  کی ایک معروف گلوکارہ نیلو اور اس کی والدہ جان بیگم میں کورونا وائرس کی تصدیق کے بعد خوف میں اضافہ ہوا اور اب یہ محلہ سنسان پڑا ہے۔

سوات کے مقامی فنکار کورونا کو سماجی بدنامی کا باعث بننے والی بیماری تصور کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ نیلو اور ان کی والدہ کے کورونا ٹیسٹ کے بظاہر مثبت نتائج آئے تو انہوں نے سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو اپ لوڈ کی جس میں ان دونوں نے اس خبر کو اپنے خلاف ایک سازش قرار دیا۔

Pakistan Stadt Swat Sängerin Nello
سوات کی معروف گلوکارہ نیلو۔تصویر: Syed Anwar Shah

کورونا کا بحران سوات کے فنکاروں کے لیے کن مشکلات کا سبب بن رہا ہے؟

اس بارے میں ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے صحافیوں کی بین الاقوامی تنظیم فورتھ پلر کے خیبر پختونخواہ کے ڈائریکٹر اور سینئر صحافی سید انور شاہ کا کہنا تھا،''اس وبا کے خوف سے ان کا روزگار ٹھپ ہو گیا ہے۔ معاشی تنگ دستی کے علاوہ یہ لوگ تنہا ہوتے چلے گئے کیونکہ جہاں دوپہر سے رات دیر تک رونق ہوتی، گھنگھروؤں کی گونج ہوتیں واہ واہ کی صدائیں ہوتیں وہاں ایک دم سناٹا ہو جائے تو یہ بھی ایک درد ناک وقت بن جاتا ہے۔ کورونا سے فنکاروں کی روزی روٹی پر کاری ضرب لگی ہے۔‘‘

حکومت کا اس برادری کے تحفظ کے لیے کیا رویہ دیکھنے میں آ رہا ہے؟

اس سوال کے جواب میں سید انور شاہ نے کہا،'' گلو کاراؤں و رقاصاؤں سمیت طبلہ اور موسیقی کے دیگرساز بجانے والے بھی روزگار سے محروم ہوگئے ہیں۔ حکومت کی جانب سے تا حال ان لوگوں کی کوئی مدد نہیں کی گئی ہیں اور نہ ہی ان کے لیے کسی امداد کا اعلان ہوا ہے۔‘‘

سید انور شاہ نے مزید بتایا کہ خیبر پختونخوا میں پشاور کے بعد سب سے زیادہ کورونا وائرس کے مریض سوات سے ہیں، جن کی تعداد 250 سے تجاوز کر چُکی ہے، جبکہ اس شہر میں چودہ اموات بھی ہوئی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ لوگ اب کافی محتاط ہوگئے ہیں اور وہاں کا رخ بلکل نہیں کررہے جبکہ ضلعی انتظامیہ  بھی اس مرض کے انسداد کے لیے سختی کررہی ہے۔

کشور مصطفیٰ

 

 

 

 

 

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں