1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بلوچستان کی صورتحال اور پاکستانی سکیورٹی ایجنسیاں

شامل شمس / عاصم سلیم7 دسمبر 2013

سياسی مبصر ملک سراج اکبر نے الزام عائد کيا ہے کہ پاکستانی سکيورٹی ايجنسياں ملک ميں انسانی حقوق کی خلاف ورزيوں سميت بلوچ کارکنوں کے اغواء ميں بھی ملوث ہيں۔ انہوں نے يہ بات ڈوئچے ويلے کے ساتھ ايک خصوصی انٹرويو میں کہی۔

https://p.dw.com/p/1AUab
تصویر: DW/Shadi Khan Saif

پاکستان ميں بلوچستان سے یکدم لاپتہ ہو جانے والے افراد کو عدالت ميں پيش کرنے کے ليے ملکی سپريم کورٹ نے پانچ دسمبر کی تاريخ مقرر کر رکھی تھی تاہم حکومت ان لاپتہ افراد کو پيش کرنے ميں ناکام رہی۔ مقامی ميڈيا کے مطابق وزير دفاع خواجہ آصف نے عدالتی سماعت کے دوران بتايا کہ اس وقت کوئی بھی لاپتہ شہری حکومت کی تحويل ميں نہيں ہے۔ اس کے جواب ميں عدالت کی جانب سے وزير دفاع کو حکم دیا گیا کہ ان لاپتہ افراد کی عدالت ميں حاضری کو ہر حال میں يقينی بنايا جائے۔

بلوچستان سے تعلق رکھنے والے لاپتہ افراد کے بارے میں ڈوئچے ويلے کے ساتھ ایک خصوصی بات چيت میں امريکا ميں مقيم سياسی پاکستانی تجزيہ نگار ملک سراج اکبر نے اس معاملے ميں پاکستان کے سلامتی کے ذمہ دار اداروں کو قصور وار ٹھہرايا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان ميں ملٹری اور اس کے ماتحت کام کرنے والی انٹيليجنس ايجنسياں اپنی کئی مبينہ ماورائے عدالت کارروائيوں کے ليے روايتی طور پر جواب دہ نہيں رہیں۔ ملک سراج اکبر کے بقول يہی خفیہ ايجنسياں بلوچستان ميں جبری گمشدگيوں ميں ملوث مانی جاتی ہيں۔

ڈی ڈبليو کے ساتھ گفتگو میں ملک سراج اکبر نے يہ دعویٰ بھی کيا کہ بلوچ افراد کی ان مبينہ جبری گمشدگيوں ميں متعدد سرکاری ادارے ملوث ہيں، جن ميں انٹرسروسز انٹيليجنس، ملٹری انٹيليجنس اور فرنٹيئر کور انٹيليجنس شامل ہيں۔ انہوں نے بتايا کہ سکيورٹی ايجنسياں ایسے افراد کو پيش کرنے سے متعلق عدالتی احکامات پر عمل اس لیے نہيں کر رہيں کہ ان کی رائے میں لاپتہ بلوچ افراد عليحدگی پسند تحريکوں کے ساتھ قريبی روابط رکھتے ہيں۔

سپريم کورٹ نے لاپتہ افراد کو پيش کرنے کے ليے نو دسمبر تک کی محلت دی ہے
سپريم کورٹ نے لاپتہ افراد کو پيش کرنے کے ليے نو دسمبر تک کی محلت دی ہےتصویر: dapd

ايک اور سوال کے جواب ميں ملک سراج اکبر کا کہنا تھا کہ جب وزير دفاع خواجہ آصف نے عدالتی سماعت کے دوران يہ بتايا کہ اس وقت کوئی بھی لاپتہ فرد حکومت کی تحويل ميں نہيں، تو دراصل وہ غلط نہیں تھے۔ سراج اکبر کے بقول پاکستانی فوج اور اس کے ماتحت کام کرنے والی ايجنسياں سويلين حکومتوں کو اپنی کارروائيوں سے آگاہ نہيں رکھتیں۔ بلوچستان بالخصوص ایک ایسا معاملہ ہے، جس ميں ’قومی سلامتی‘ کے عنصر کا خيال رکھتے ہوئے کئی معاملات کی کڑی نگرانی کی جاتی ہے۔ سراج اکبر نے کہا، ’’ميرے خيال ميں سابق صدر آصف زرداری کی طرح موجودہ وزير اعظم نواز شريف کو بھی اس بارے ميں کوئی معلومات نہيں کہ لاپتہ افراد در اصل کہاں ہیں۔‘‘

بلوچوں کے لانگ مارچ کے حوالے سے پوچھے گئے ايک سوال کے جواب ميں سراج اکبر نے بلوچ عوام کی اپنے شہری حقوق اور انصاف کے لیے جدوجہد سے متعلق اس مارچ کو اہم سنگ ميل قرار ديا۔ انہوں نے کہا، ’’انسانی حقوق اور انصاف کے ليے سات سو کلوميٹر پيدل چل کر اس مارچ کے سربراہ ماما قدير اور ان کے ساتھيوں نے وہ کر دکھايا ہے، جو ميری رائے میں شايد مہاتما گاندھی، مارٹن لوتھر کنگ اور نيلسن منڈيلا بھی نہيں کر پائے تھے۔‘‘ اس موقع پر ان کا يہ بھی کہنا تھا کہ لانگ مارچ سے اس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ زيادہ تر لاپتہ افراد ممکنہ طور پر عليحدگی پسند تحريکوں سے وابستہ نہيں ہيں ورنہ ان کے اہل خانہ ان کی تصاوير اور ديگر تفصيلات اس قدر بےباکی سے ميڈيا کے سامنے پيش نہ کرتے۔

ايک اور سوال کے جواب ميں امريکا ميں جلاوطنی کی زندگی گزارنے والے اس پاکستانی نژاد تجزيہ نگار کا کہنا تھا کہ بلوچ عليحدگی پسندوں اور لانگ مارچ کرنے والوں کے مطالبات ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہيں۔ جنوب مغربی صوبہ بلوچستان ميں فعال عليحدگی پسند ايک خود مختار رياست کا مطالبہ کرتے ہيں جبکہ لانگ مارچ میں شامل افراد محض اپنے گمشدہ عزیزوں کی بازيابی، ان کی وکلاء تک رسائی اور عدالتی سطح پر انصاف کی فراہمی کے مطالبات کر رہے ہيں۔

ملک سراج اکبر نے کہا، ’’اسلام آباد کے ليے اب بھی يہ ممکن ہے کہ وہ ان گمشدہ يا لاپتہ افراد کو بازياب کراتے ہوئے بلوچستان کے مسائل کو مزيد بگڑنے سے بچا سکے اور ریاست مخالف جذبات کو بلوچستان کے عام شہريوں تک پھيلنے سے روک سکے۔‘‘ اس کے برعکس بلوچ عليحدگی پسندوں کی سوچ یہ ہے کہ اسلام آباد اور اس کے ادارے مبینہ طور پر انسانی حقوق کی جتنی بھی خلاف ورزياں کریں گے، عليحدگی پسندی کی تحريک کے ليے عوامی تائید و حمايت ميں اتنا ہی اضافہ ہو گا۔