1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بظاہر خود کو مارنے والا شخص خطرہ تھا، نیوزی لینڈ پولیس

3 اپریل 2019

نیوزی لینڈ میں پولیس کے ساتھ ہونے والے بحث و مباحثے کے دوران بظاہر خود کو ہلاک کرنے والے شخص کو معاشرے کے لیے ایک نمایاں خطرہ قرار دیا گیا ہے۔ اس نے مساجد پر حملوں میں پچاس افراد کی ہلاکت کے عمل کی حمایت بھی کی تھی۔

https://p.dw.com/p/3G8ud
Neuseeland Terroranschlag in Christchurch | Al-Noor-Moschee Trauer, Solidarität
تصویر: Getty Images/AFP/W. West

نیوزی لینڈ کی پولیس نے آج بدھ کو بتایا کہ چون سالہ آرٹمنی ڈوبووسکیو کا مساجد پر حملے کرنے والے کے ساتھ براہ راست کوئی تعلق نہیں تھا۔ ڈوبووسکیو کو ٹروئے کے نام سے بھی جانا جاتا تھا۔

پولیس کمانڈر جان پرائس کے مطابق ڈوبووسکیو کے حوالے سے پولیس اس وقت چوکنا ہوئی، جب اس نے پندرہ مارچ کے حملے کے بارے میں کچھ عجیب و غریب سی ای میلز کیں۔ ان کے بقول کچھ اطلاعات کی بنیاد پر پولیس نے اس کے تین گھروں کی تلاشی لی اور وہاں سے ملنے والے ہتھیار اور انتہائی شدت پسند مواد قبضے میں لے لیا۔

Neuseeland Christchurch Trauerfeier nach Terroranschlag
تصویر: Getty Images/AFP/STR

 اس کے بعد ستائیس مارچ کے دن مقامی وقت کے مطابق ساڑھے بارہ بجے پولیس نے آرٹمنی ڈوبووسکیو کو ایک گاڑی میں سفر کرنے کے دوران روکا۔ اس کے بعد تین گھنٹوں پولیس کے ساتھ اس کی بات چیت جاری رہی۔ تاہم حکام کے بقول گاڑی تک پہنچنے سے قبل ہی اس نے خود کو چاقو سے زخمی کر لیا تھا۔ پولیس کو اس کی گاڑی سے ایک خنجر بھی ملا تھا۔

کمانڈر جان پرائس کے بقول چھاپوں کے دوران ملنے والے ہتھیاروں اور مشتبہ شخص کے ساتھ ہونے والی بات چیت سے پولیس اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ ڈوبووسکیو کمیونٹی کے لیے خطرے کا باعث تھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ فی الحال وہ اس خطرے کی نوعیت کو بیان نہیں کر سکتے۔

 ڈوبووسکیو کے والد نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا کہ ان کا بیٹا 1997ء میں روس سے نیوزی لینڈ آیا تھا۔ ان کے بقول وہ ہتھیاروں اور عسکری تاریخ میں جنون کی حد تک دلچسپی  رکھتا تھا اور اس نے نازی دور کی یادگاریں بھی اکھٹی کی ہوئی تھیں،’’میرے بیٹے کو چیزیں جمع کرنے کا شوق تھا۔ اس نے کبھی بھی ہتھیاروں کو استعمال کرنے کی بات نہیں کی۔‘‘ اطلاعات کے مطابق  ڈوبووسکیو ماضی میں بھی متعدد جرائم کا ارتکاب کر چکا تھا۔