1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بشار الاسد اپنے لوگوں کا قتل عام بند کریں، بان کی مون

16 نومبر 2011

شام میں شہریوں کے خلاف سکیورٹی کریک ڈاؤن پر عالمی دباؤ میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ اب اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے شام کے صدر بشار الاسد پر زور دیا ہے کہ وہ اپنے لوگوں کا قتل عام بند کر دیں۔

https://p.dw.com/p/13BBa
شام کے صدر بشارالاسدتصویر: dapd

بنگلہ دیش کے دارالحکومت ڈھاکہ میں منگل کو صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے کہا کہ بشار الاسد کو عرب لیگ کے ساتھ طے پانے والے معاہدے کو نافذ کرنا چاہیے، تاکہ آٹھ ماہ سے جاری شورش کا پرامن حل نکالا جا سکے۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق بان کی مون کا یہ بیان ایسے وقت سامنے آیا ہے کہ جب صرف منگل کو ہی شام میں سکیورٹی فورسز کے بدترین کریک ڈاؤن میں 70 سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔

بان کی مون نے کہا: ’’میں عرب لیگ کے رہنماؤں کے ساتھ اس معاملے پر مسلسل بات کرتا رہا ہوں۔‘‘

ترکی نے بھی شام پر زور دیا ہے کہ اپنے شہریوں کے خلاف کارروائیاں بند کرے۔ ترک وزیر اعظم رجب طیب ایردوان کے مطابق انہیں اس بات کی اُمید نہیں رہی کہ شام کے رہنما (بشار الاسد) اپنا اقتدار بچانے کے لیے خونریز کارروائیاں بند کریں گے۔

اُدھر گلف کوآپریشن کونسل (جی سی سی) نے شام کی جانب سے ہنگامی اجلاس بلانے کی درخواست مسترد کر دی ہے۔ جی سی سی کے سیکرٹری جنرل عبدالطیف الزینی کا کہنا ہے کہ اس وقت عرب اجلاس کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ عرب لیگ شام کے بحران پر مسلسل نظر رکھے ہوئے ہے۔

UNO General Sekretär Ban Ki-moon
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مونتصویر: picture alliance ZUMA Press

دمشق حکومت نے بھی منگل کو رات گئے یہ اعلان کیا کہ وہ عرب۔ترک فورم میں شریک نہیں ہو گی نہ ہی بدھ کو مراکش کے دارالحکومت رباط میں شروع ہونے والے عرب لیگ کے وزارتی اجلاس میں حصہ لے گی۔

شام کے سرکاری خبر رساں ادارے صنا نے دمشق حکومت کے ایک اہلکار کے حوالے سے بتایا کہ عرب لیگ کی جانب سے شام کی رکنیت معطل کیے جانے کے فیصلے کے تناظر میں ان دونوں میٹنگز میں شریک نہ ہونے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ منگل کو شام میں ایک ہزار سے زائد قیدیوں کو رہا بھی کیا گیا ہے۔

رپورٹ: ندیم گِل / خبر رساں ادارے

ادارت: افسر اعوان

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں