1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’برلن نابالغ پناہ گزینوں کو اپنانے کی اجازت دے‘

6 مارچ 2020

جرمنی میں سات شہروں کے میئرز نے حکومت کے نام ایک مشترکہ مکتوب میں کم عمر پناہ گزینوں کو اپنے شہروں میں پناہ دینے کی اجازت طلب کی ہے۔

https://p.dw.com/p/3Ywsj
تصویر: picture-alliance/PIXSELL/A. Durgut

جرمنی کے سات شہروں کے میئرز نے وفاقی حکومت کے نام اپنے مشترکہ خط میں لکھا ہے کہ ان کے شہروں کو یونان کے پناہ گزین کیمپوں کے نابالغ تارکین وطن کو اپنانے کی اجازت دی جائے۔ یونان کے پناہ گزیں کیمپوں میں پھنسے کم عمر مہاجرین کو پناہ دینے سے متعلق وفاقی جرمن پارلیمان میں ایک قرارداد مسترد ہونے کے بعد میئرز نے حکومت کے نام یہ خط لکھا ہے۔

اس عرضی نامے پر کولون، ڈوسلڈورف، پوٹسڈام، ہینوور، فرائیبرگ، روٹن برگ اور فرینکفرٹ کے میئرز کے ساتھ ساتھ لوئر سیکسونی کے وزیر داخلہ بورس پسٹوریئسٹ نے بھی دستخط کیے ہیں۔ دو روز قبل ہی جرمنی کے ایوان زیریں میں یونان کے پناہ گزیں کیمپوں میں مقیم نابالغ تارکین وطن کو لینے کے لیے جو قرارداد پیش کی گئی تھی وہ نا منظور ہوگئی تھی۔

ہینوور کے ایک میڈیا ادارے آر این ڈی نے اس مشترکہ مکتوب کے اقتباسات شائع کیے ہیں۔ اس میں کہا گيا ہے، ’’یونان کے جزیرے پر گزشتہ چند روز میں ڈرامائی طور پر صورت حال بدترہوئی ہے۔ خاص طور پر بچوں اور خواتین کے لیے جہاں کیمپوں میں گنجائش سے زیادہ لوگ ہیں، جس میں انتہائی ضروری سہولتیں اور بنیادی طبی سہولیات موجود نہیں اور ماحول ناقابل برداشت ہے۔‘‘

اس خط میں کہا گيا ہے کہ تقریباﹰ 140 جرمن شہر اپنے آپ کو محفوظ بتا کر مزید پناہ گزینوں کی مدد کرنے کی خواہش کا اعلان پہلے ہی کر چکے ہیں۔ میئروں نے مطالبہ کیا ہے کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ ان شہروں کو ایسے پناہ گزینوں کو جگہ دینے کے لیے فوری طور پر قانونی راہیں مہیا کرے۔ اس کے مطابق جرمنی میں 130 شہروں اور کمیونیٹیز پر مشتمل اتحاد ’سیف ہیون‘ اور بعض جرمن میونسپلٹیز  پہلے ہی اس بات کا اعلان کر چکے ہیں کہ وہ ایمرجنسی پروگرام کے تحت چودہ برس تک کی عمر کے ایسے پانچ سو پناہ گزينوں کو فوری طور پر تسلیم کرنے کے لیے تیار ہیں جو یونان کے جزیرے پر برے حالات میں رہنے پر محبور ہیں۔

اس مکتوب میں مزید کہا گیا کہ متعلقہ شہروں میں پناہ گزینوں کو لینے سے متعلق صلاحیتوں کی جانچ کی گئی ہے اور ایسے شہر بچوں کی رہائش، ان کی تعلیم اور پرورش کے لیے پوری طرح سے تیار ہیں۔ ان شہروں میں پناہ کے لیے ’’ان بچوں کو ترجیح دی جائے گی جن کے والدین اب حیات نہیں ہیں اور جو مہاجر کیمپوں میں تنہا رہنے پر مجبور ہیں۔‘‘

یونانی سرحد پر مہاجرین کا رش

ترکی نے فروری میں کہا تھا کہ وہ پناہ گزینوں کو اب یوروپی یونین میں داخل ہونے سے نہیں روکےگا جس کے بعد جرمن حکومت نے کہا تھا کہ وہ ترکی اور یونان کی سرحد پر پیدا ہونے والی صورت حالات پر نظر رکھے ہوئے ہے۔ ترکی کے اس اعلان کے نتیجے میں ہزاروں تارکین وطن ہمسایہ یونان اور بلغاریہ کی طرف نکل پڑے ہیں۔ ان دونوں یورپی ممالک نے تارکین وطن کی بڑی تعداد کو روکنے کے لیے ترکی کے ساتھ اپنی سرحدوں پر سکیورٹی فورسز کو تعینات کیا ہے۔ 

بدھ چار مارچ کو جرمن پارلیمان میں گرین پارٹی نے یونانی پناہ گزیں کیمپوں سے 5000 نابالغوں کو لینے سے متعلق ایک قرارداد کے خلاف ووٹ دیا تھا۔ اس پر بحث کے دوران جرمن وزیر داخلہ ہورسٹ زیہوفر نے تارکین وطن سے متعلق سخت موقف اختیار کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ یورپی یونین مہاجرین سے متعلق جو موقف اختیار کرے گی جرمنی اسی کے مطابق اقدامات کرے گا۔ سن 2015ء میں تارکین وطن کے بڑے بحران کے دوران پناہ گزینوں کے  سب سے مطلوب ترین مقامات میں جرمنی ایک تھا اور اس برس جرمنی نے دس لاکھ سے زیادہ مہاجرین کو پناہ دی تھی۔

ڈی ڈبلیو کے ایڈیٹرز ہر صبح اپنی تازہ ترین خبریں اور چنیدہ رپورٹس اپنے پڑھنے والوں کو بھیجتے ہیں۔ آپ بھی یہاں کلک کر کے یہ نیوز لیٹر موصول کر سکتے ہیں۔

ص ز/ ج ا (خبر رساں ادارے)