1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’برطانیہ گورکھا کی خدمات کا قرض دار ہے‘

Maqbool Malik27 مارچ 2014

برطانیہ کا اعلیٰ ترین فوجی اعزاز ’وکٹوریا کراس‘ حاصل کرنے والے کیپٹن رام بہادر لمبو نے نیپالی فوجیوں کے ساتھ ہونے والے سلوک کو گہرے صدمے کا باعث قرار دیا ہے۔

https://p.dw.com/p/1BWZk
تصویر: Reuters

رام بہادر بچ جانے والے آخری گورکھا ہیں جنہیں برطانیہ کے اعلیٰ ترین فوجی اعزاز ’وکٹوریا کراس‘ سے نوازا گیا تھا۔ 74 سالہ لمبو کو 1965ء میں انڈونیشیا اور دولت مشترکہ کے مابین ہونے والی لڑائی میں بہادری کی بے مثال کارکردگی کے مظاہرے کے عوض اس گراں قدر انعام کا حقدار قرار دیا گیا تھا۔

گورکھا فوجی دستہ، نیپال کے فوجیوں پر مشتمل ملٹری یونٹ ہے جو برطانوی اور بھارتی فوج میں شامل ہوا کرتا تھا۔ اس کے جیالوں کے لیے کہا جاتا ہے کہ انہیں موت یا کسی دیگر چیز کا کوئی خوف نہیں ہوتا اور یہ بہت بہادر ہوتے ہیں۔

رام بہادر نے بُدھ کو گورکھا ویلفیئر یا بہبود سے متعلق ایک برطانوی تحقیقاتی کمیشن سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ اُن کے لیے یہ امر نہایت افسوس اور صدمے کا باعث ہے کہ ’نیپالی جنگجوؤں کے ساتھ تیسرے درجے کے سپاہیوں جیسا سلوک ہوتا رہا ہے‘۔ گورکھا فوجیوں کی طرف سے برطانوی فوج سے برابر تنخواہوں، پینشن اور دیگر مساوی سہولیات کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

جنگی ہیرو رام بہادر کا کہنا ہے کہ اُن کی 28 سالہ سروس کے دوران انہیں اپنے ساتھ ہونے والے سلوک کے بارے میں کسی قسم کی کوئی شکایت نہیں ہوئی تاہم ریٹائرمنٹ کے بعد انہیں اندازہ ہوا کہ برطانوی حکومت گورکھاؤں کے ساتھ ’تیسرے درجے کے فوجیوں" جیسا سلوک کرتی ہے۔ برطانوی اراکین پارلیمان کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے رام بہادر نے کہا، ’’ مجھے اس بات کا یقین نہیں تھا تاہم جب مجھے برطانوی فوجیوں اور گورکھاؤں کو میسر مراعات کے اتنے زیادہ فرق کا علم ہوا تو مجھے شدید صدمہ پہنچا۔‘‘

Die Armee von Nepal patrouilliert in Katmandu
گورکھا بہادری کی علامت سمجھے جاتے ہیںتصویر: AP

رام بہادر کا مزید کہنا تھا، ’’جب مجھے یہ پتہ چلا کہ ہمارے قابل اعتماد دوستوں نے ہمیں دھوکا دیا، انہوں نے ہماری پیٹھ میں خنجر گھونپا تو مجھے بہت دکھ ہوا۔ یہ ملک گورکھا کے اعزاز کا مقروض ہے مگر اس قرض کا بدلہ کہاں ہے۔‘‘

چھاتی کے بائیں طرف لاتعداد تمغے سجائے اور دائیں ہاتھ میں چھڑی اُٹھائے رام بہادر لمبو نے برطانیہ کے ایوان پارلیمان کے سامنے علامتی تصاویر بھی کھنچوائیں۔ ایک برطانوی خاتون قانون ساز جیکی ڈوئل پرائیس، اس بارے میں ہونے والی تحقیقات کی سربراہی کر رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ تحقیقی عمل گورکھاؤں کو اپنی شکایات درج کرانے کا ایک موقع فراہم کرے گا۔ اُن کے مطابق گورکھا برطانوی فوج کا ایک قیمتی حصہ ہے اور انہیں برطانوی معاشرے میں بہت عزت اور شفقت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ تاہم جیکی ڈوئل پرائیس نے اس امر کا اقرار کیا کہ گورکھاؤں کی تنخواہوں میں اضافے، ان کے حالات میں بہتری اور برطانیہ میں آباد ہونے کے حق اور اس کی مدت میں توسیع کے ضمن میں کافی مثبت پیش رفت ہونے کے باوجود گورکھاؤں کو کچھ خاص قسم کے دیگر مسائل کا سامنا ہے، جنہیں وہ زیر بحث پر لانا چاہتے ہیں۔

گورکھا فوجی سب سے پہلے 1815ء میں برطانوی فوج میں خدمات انجام دینے پر مامور ہوئے تھے۔ پہلی اور دوسری عالمی جنگ میں قریب دو لاکھ گورکھاؤں نے برطانوی فوج میں شامل ہو کر جنگ لڑی تھی۔ بتایا جاتا ہے کہ لگ بھگ 43 ہزار ہلاک یا زخمی ہوئے تھے۔ موجودہ برطانوی فوج میں بھی کوئی تین ہزار ایک سو گورکھا فوجی شامل ہیں۔