برطانیہ میں فون ہیکنگ کا اسکینڈل
7 جولائی 2011دی ٹیلی گراف کے مطابق پرائیویٹ سراغ رساں گلین مل کلیئر کا شبہ ہے کہ برطانیہ میں پیدا شدہ ٹیلی فون ہیکنگ کے بحران کا فوکس امکانی طور پر افغانستان میں حاضر سروس کے دوران ہلاک ہونے والے فوجیوں کے لواحقین ہیں۔ میڈیا کی دنیا کے اہم نام روپرٹ مورڈوخ کے نیوز انٹرنیشنل گروپ نے اس خبر پر عدم اطمینان کا اظہار کیا ہے، جس کے مطابق اس گروپ کے ایک اخبار نے پیغامات کو حاصل یا انٹر سیپٹ کرنے کی کوشش کی تھی۔ روپرٹ مور ڈوخ نے ایسی خبروں کی مذمت کرتے ہوئے انہیں ناقابل قبول قراردیا ہے۔ آسٹریلیا سے تعلق رکھنے والے میڈیا ٹائیکون نے اس معاملے میں پولیس کے ساتھ ہر ممکن تعاون کا یقین بھی دلایا ہے۔
دی ٹیلی گراف کے مطابق برطانوی وزارت دفاع نے ان پرائیویٹ سراغ رسانوں سے وضاحت طلب کر لی ہے، جنہوں نے افغانستان میں ہلاک ہونے والے فوجیوں کے خاندانوں کو ابتداء میں متنبہ کیا تھا کہ وہ ہیکنگ کا نشانہ بن سکتے ہیں۔
بدھ کے روز برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے اس معاملے کی مکمل سرکاری چھان بین کے مطالبے کی مکمل حمایت کا اعلان کیا تھا۔ اس مناسبت سے کیمرون کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ ابتدائی مرحلے پر محکمہء پولیس اپنا تفتیشی عمل مکمل کر لے۔ انہوں نے اپوزیشن لیڈر ایڈ ملی بینڈ کی جانب سے فوری طور پر سرکاری چھان بین شروع کرنے کے مطالبے کو رد کرتے ہوئے کہا کہ پولیس کے تفتیشی عمل کو ادھورا چھوڑنا مناسب نہیں ہے۔ برطانوی لیبر پارٹی کے لیڈر نے نیوز انٹرنیشنل کی چیف ایگزیکٹو ربیکہ بروکس کے استعفے کا مطالبہ بھی کیا تھا۔ اسے بھی برطانوی وزیر اعظم نے رد کردیا ہے۔ برطانوی صحافی ربیکہ بروکس سن 2002 میں اٹھنے والے مبینہ ہیکنگ بحران کے وقت اخبار نیوز آف دی ورلڈ کی ایڈیٹر تھیں۔
دوسری جانب اس معاملے میں ہونے والی ایک اور پیش رفت یہ ہے کہ کار ساز ادارے فورڈ اور ورجن ہالی ڈیز جیسی بڑی کمرشل کمپنیوں نے نیوز آف دی ورلڈ کو اشتہارات دینے کے عمل میں کمی کرنا شروع کر دی ہے۔ فون ہیکنگ اسکینڈل کے منظر عام پر آنے کے بعد اس اخبار کی ساکھ بھی بری طرح متاثر ہونے کا امکان پیدا ہو گیا ہے۔ اسی اخبار پر الزام عائد کیا گیا ہے کہ اس کے ایک صحافی نے اس لاپتہ نوجوان لڑکی کا فون ہیک کیا تھا، جس کی لاش بعد میں پولیس کو ملی تھی۔ یہ اخبار روپرٹ مورڈوخ کے گروپ میں شامل ہے۔
رپورٹ: عابد حسین ⁄ خبر رساں ادارے
ادارت: عاطف بلوچ