1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

برطانوی مظاہرین نے مشہور تاجر کا مجسمہ کیوں گرایا؟

8 جون 2020

برطانوی شہر برسٹل میں نسل پرستی کے خلاف مظاہرے میں لوگوں نے علاقے کی بااثر اور دولت مند شخصیت کا تاریخی مجسمہ گرا کر اسے نہر میں پھینک دیا۔

https://p.dw.com/p/3dRC7
BG Statuen Proteste weltweit gegen Rassismus und Kolonialismus Bristol Edward Colston
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/G. Spadafora

ایڈورڈ کولسٹن سترہویں صدی میں دنیا میں غلاموں کی تجارت کرتا تھا۔ اس نے افریقہ سے سیاہ فام عورتوں اور بچوں سمیت دسیوں ہزار انسانوں کی تجارت کی اور بڑی دولت کمائی۔

اتوار کو مظاہرین نے ایڈورڈ کولسٹن کے پیتل کے مجسمے کو رسیوں سے باندھ کر شہر کی سڑکوں پر گھسیٹا اور اس کے چہرے پر سرخ پینٹ مل دیا۔ بعد میں اس مجسمے کو برسٹل کی بندرگاہ کے پانی میں غرق کردیا گیا۔ جس جگہ سے مجمسہ تھا وہاں مظاہرین نے کھڑے ہو کر امریکا اور برطانیہ سمیت دنیا بھر میں نسلی تعصب کے خلاف تقاریر کیں۔

مظاہرین کے مطابق نسل پرستی کے خاتمے کے لیے ضروری ہے کہ ایسے گھناؤنے کاروبار میں ملوث شخصیات کو معاشرے میں عزت اور احترام دینے کی بجائے ان کے اعمال کو بےنقاب کیا جائے۔

امریکا میں نسل پرستی خوفناک ہے لیکن ہمیں پہلے اپنا گھر ٹھیک کرنا ہوگا: انگیلا میرکل

ٹرمپ انتظامیہ کے خلاف مظاہرین کے حقوق کی پامالی کا مقدمہ

ایڈورڈ کولسٹن تھا کون؟

کولسٹن کا تعلق ایک امیر تاجر خاندان سے تھا اور وہ رکن پارلیمان بھی رہا۔ اس نے سن سولہ سو اسی میں "رائل افریکن کمپنی" کے لیے کام کرنا شروع کیا۔ اس کمپنی کی مغربی افریقہ سے امریکا کے لیے سیاہ فام غلاموں کی تجارت پر اجارہ داری تھی۔

رائل افریکن کمپنی کے سربراہ انگلینڈ کے بادشاہ چارلس دوئم کے بھائی تھے، جو بعد میں خود جیمز دوئم کے طور پر شاہی تخت پر براجمان ہوئے۔

یہ کمپنی برسوں تک عورتوں اور بچوں سمیت سیاہ فام غلاموں کو افریقہ سے پکڑ کر امریکا اور کیریبین کے جزائر میں سفید فام کاروباری شخصیات کو بیچتی رہی۔ ایک اندازے کے مطابق کمپنی نے سترہ برس کے دوران کوئی ایک لاکھ غلاموں کی تجارت کی۔ اس دوران  کئی افراد سمندر کے راستے سفر کے دوران راستے میں ہی ہلاک ہوئے۔

انسانوں کی اس خرید و فروخت میں کولسٹن نے بڑی دولت کمائی۔ بعد میں اس نے اس پیسے کا کافی حصہ فلاح و بہبود کے کام پر لگایا اور برسٹل شہر  اور لندن میں اسکول اور ہسپتال بنوائے۔ برسٹل میں ان کی ان خدمات کی یاد میں سوا سو سال پہلے، سن اٹھارہ سو پچانوے میں، کولسٹن کا اٹھارہ فٹ لمبا مجسمہ تعمیر کرکے اس کے نام سے منسوب کولسٹن ایونیو پر نصب کیا گیا۔ شہر میں آج بھی اس کے نام پر کئی دیگر سڑکیں، یادگاریں اور عمارتیں موجود ہیں۔

BG Statuen Proteste weltweit gegen Rassismus und Kolonialismus Bristol Edward Colston
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/G. Spadafora

مجسمہ گرانے پر ردعمل

 

برطانیہ میں سیاستدانوں اور سماجی حلقوں کا کہنا ہے کہ نسل پرستی کا مسئلہ امریکا تک محدود نہیں اور برطانیہ کو بھی اپنے گریبان میں جھانکنے کی اشد ضرورت ہے۔

برطانوی حزب اختلاف کی لیبر پارٹی کے منتخب رکن کلائیو لیوس نے کولسٹن کا مجسمہ گرانے کا خیرمقدم کیا اور کہا کہ وہ شخص بے شمار انسانوں کا خون بہانے اور ان پر ظلم کرنے کا ذمہ دار تھا۔ انہوں نے کہا کہ جب تک ہم تاریخ کے ان تلخ حقائق کا سامنا نہیں کریں گے ہم اپنے نظام سے نسل پرستی کا خاتمہ نہیں کر سکیں گے۔

تاہم حکمراں کنزرویٹو پارٹی کے سابق وزیر خزانہ ساجد جاوید نے کہا کہ مجسمے کو اس طرح گرانا اور پھینکنا "ایک مجرمانہ نقصان" ہے۔ انہوں نے کہا، "میں برسٹل میں پلا بڑھا ہوں۔ مجھے بھی یہ بات سخت ناگوار لگتی ہے کہ  ایڈورڈ کولسٹن نے کس طرح غلاموں کی تجارت سے دولت کمائی۔ لیکن یہ جو کچھ ہوا، وہ بھی ٹھیک نہیں۔ اگر برسٹل کے لوگ کسی یادگار کو ہٹانا چاہیں تو اسے جمہوری طریقے سے ہٹانا چاہییے، مجرمانہ نقصان سے نہیں۔"

پولیس تشدد کے خلاف غم وغصہ اب پوری دنیا میں پھیلتا ہوا

برطانیہ میں نسل پرستی کے خلاف مظاہرے

برطانیہ بھر ہفتہ اور اتوار کو ہزاروں لوگوں نے سڑکوں پر مارچ کیا۔ لندن اور برسٹل کے علاوہ مانچسٹر، ناٹنگھم، گلاسگو اور ایڈنبرگ میں بھی احتجاج ہوا۔

یہ مظاہرے امریکا میں سیاہ فام شہری جارج فلوئیڈ کی سفید فام پولیس والوں کے ہاتھوں ہلاکت اور پھر وہاں عوامی مظاہروں کے تناظر میں ہورہے ہیں۔

 برطانیہ میں زیادہ تر مظاہرے پر امن رہے، تاہم لندن میں اتوار کو شام گئے وزیراعظم کی سرکاری رہائیش گاہ ٹین ڈاؤننگ اسٹریٹ کے قریب کچھ مشتعل افراد کی پولیس کے ساتھ جھڑپیں ہوئیں۔ بدامنی کے نتیجے میں آٹھ پولیس اہلکار زخمی ہوگئے۔ بعد میں پولیس نے درجنوں افراد کو حراست میں لے کر علاقے کو مظاہرین سے صاف کرلیا۔

ایک بیان میں برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن نے کہا کہ لوگوں کو احتجاج کا حق ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ پولیس والوں پر حملے برداشت کیے جائیں گے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ قانون ہاتھ میں لینے والوں کا ضرور احتساب ہوگا۔

ش ج، ع ت (روئٹرز، اے ایف پی)