1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تاريخپاکستان

برصغیر میں فقیری کلچر کیسے پیدا ہوا؟

11 ستمبر 2022

درباری کلچر کے ردعمل کے طور پر برصغیر ہندوستان میں فقیری کلچر پیدا ہوا۔ یہ درباری کلچر کے خلاف ایک احتجاج بھی تھا۔ حکمران اور اشرافیہ اپنے محلات، ہیرے جواہرات اور حرم میں خوبصورت عورتوں سے دوسروں کو مرعوب کرتے تھے۔

https://p.dw.com/p/4Ggg2
DW Urdu Blogger Mubarak Ali
ڈاکٹر مبارک علیتصویر: privat

یہ حکمران مقبروں، باغات، اپنے رہن سہن، لباس فاخرہ، لذیذ غذاؤں، جلسے جلوس کے ذریعے اپنی شان و شوکت کا مظاہرہ کرنے، فیاضی اور سخاوت کے ذریعے غریبوں کو خیرات دے کر انہیں اپنا احسان مند بناتے تھے۔

اس کے علاوہ حکمران طبقہ جنگ و جدل کے ذریعے دوسرے ملکوں اور شہروں پر قبضہ کرتا تھا، لوگوں کا قتل عام کرتا تھا یا مال غنیمت لوٹتا تھا اور سزاؤں کے ذریعے اپنے جبر اور ظلم کا اظہار کرتا تھا لیکن فقیرانہ کلچر ان سب علامات سے منحرف تھا۔

 نہ ان ک یپاس نجی جائیداد تھی، نہ مال و دولت کا ذخیرہ۔ وہ دنیاوی مسائل سے آزاد تھے۔ ان کی اپنی دنیا تھی، جس میں سادگی اور قناعت تھی، اسی کلچر سے انہیں خوشی اور مسرت حاصل ہوتی تھی، اپنی زندگی میں وہ کسی کے وفادار اور تابع نہیں ہوتے تھے۔

فقیرانہ کلچر کی تشکیل میں گداگر، فقراء، ملنگ، قلندر اور درویش شامل تھے۔ اس ضمن میں ہم بھاٹوں اور مراثیوں کا بھی ذکر کریں گے، جو اس کلچر کی پیداوار تھے لیکن سب سے پہلے ہم فرہنگ آصفیہ میں دیے جانے والے معنوں کی وضاحت کریں گے۔

 مثلاً گداگروں کے بارے میں انہوں نے لکھا ہے کہ یہ بھیک اور خیرات طلب کرنے والے لوگ ہوتے ہیں۔ فقیروں کے بارے میں فرہنگ کہتی ہےکہ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں، جو ضرورت سے زیادہ کوئی چیز نہیں رکھتے ہیں۔

برصغیر میں ہجوم کا حصہ بننے کی ثقافت

 قلندروں کا تعلق اس گروہ سے ہے، جو دنیاوی معاملات سے دور ہوتے ہیں اور طالب حق ہوتے ہیں۔ ملنگوں کا گروہ ان لوگوں پر مشتمل ہوتا ہے، جو بے خود اور مدہوش ہوتے ہیں اور درویشوں کے حصے میں مسکینیت اور غربت آتی ہے۔ لیکن ان کے بارے میں یہ بات بھی مشہور ہے کہ یہ ملکوں کی سیاحت بھی کرتے ہیں۔

 ملامتی وہ لوگ ہوتے ہیں، جو اپنے عیب نہیں چھپاتے اور اپنے ہنر نہیں دکھاتے۔ بھاٹوں کا تعلق اس گروہ سے ہے، جو بادشاہوں اور حکمرانوں کی تاریخ بیان کرتے ہیں۔ جیسے جیمز ٹوڈ نے ''اینالیس آف راجھستان‘‘ میں حکمرانوں کی تاریخ کا مواد بھاٹوں کی بیان کردہ تاریخ سے لیا ہے۔

مراثیوں کا تعلق اس گروہ سے ہے، جو امراء اور حکمرانوں کی محفلوں میں لطیفے اور مزاحیہ قصے سنا کر انہیں محظوظ کرتے تھے۔ یہ بڑے حاضر جواب ہوتے تھے لیکن ان کے مذاق کو حکمران اور امراء برداشت کرتے تھے اور انہیں انعام و اکرام دیا کرتے تھے۔

تاریخ میں چونکہ معاشرہ طبقاتی رہا ہے لہٰذا امیر و غریب کے فرق کی وجہ سے نچلے طبقے کے بعض گروہ اس قدر غربت کا شکار ہو جاتے تھے کہ وہ اپنی روز مرہ زندگی گزارنے کے لیے بھیک اور خیرات پر گزارا کرتے تھے۔ لیکن فقراء کی یہ جماعت منظم بھی ہوتی تھی اور اپنے گروہ میں رہتے ہوئے اس کے اصول اور قوانین کی پابندی کرتی تھی۔

 مشہور رومی فلسفی سینیکا لکھتے ہیں کہ شہر روم میں فقیروں کی منظم جماعت تھی، جو بھیک مانگ کر اپنا گزارا کرتی تھی۔ چارلس ڈکنز اپنے ناولوں میں فقیروں کی اس تنظیم کے بارے میں لکھتے ہیں، جو شہر لندن میں رہتے ہوئے بھیک کے ذریعے گزر اوقات کرتے تھے۔

حال ہی میں شائع ہونے والی کتاب ''وائٹ ٹریش‘‘ کی مصنفہ نینسی ایزن برگ نے لکھا ہے کہ لندن میں 17ویں صدی میں فقیروں کی اس قدر تعداد ہو گئی تھی کہ امراء کا طبقہ ان سے عاجز آ گیا تھا کیونکہ جب بھی وہ باہر نکلتے تھے، ان کے اردگرد مانگنے والے جمع ہو جاتے تھے۔

 ان لوگوں سے نجات حاصل کرنے کے لیے فیصلہ کیا گیا کہ انہیں جہازوں میں بھر کر امریکہ بھیج دیا جائے تاکہ لندن ان مانگنے والوں سے پاک صاف ہو جائے۔

برطانوی سامراج کا تجزیہ

برصغیر ہندوستان میں فقراء تقریباً ہر شہر میں موجود ہوتے تھے، لیکن ان کے بھیک مانگنے کا طریقہ کار یہ تھا کہ یہ گیت اور شاعروں کی غزلیں گلی گلی گاتے تھے۔ جس کی وجہ سے لوگ خود بخود کچھ نہ کچھ انہیں دے دیا کرتے تھے۔

فقیروں کی اپنی آزاد روی اس واقعے سے ظاہر ہوتی ہے کہ جب فرخ سیر کا قتل ہوا اور اس کا تابوت تدفین کے لیے 1719ء میں ہمایوں کے مقبرے کی طرف چلا تو اس کے جنازے میں دہلی کے فقراء شامل ہوئے کیونکہ اسے قتل کیا گیا تھا، اس لیے ان کا اس پر یہ احتجاج تھا۔ وہ روتے پیٹتے ماتم کرتے جنازے کے ساتھ ساتھ چلتے۔ وہ امراء جو اس جنازے میں شریک تھے، انہوں نے ان فقیروں کو خیرات دینا چاہی مگر انہوں نے خیرات لینے سے انکار کر دیا۔

 مولوی ذکاء اللہ نے اپنی کتاب سلطنت مغلیہ کے زوال میں لکھا ہے کہ دوسرے دن فقراء کی یہ جماعتیں اس چبوترے پر جمع ہوئیں، جہاں فرخ سیر کی لاش کو غسل دیا گیا تھا اور وہاں کھانا پکا کر فاتحہ کا انتظام کیا گیا اور رات بھر میلاد شریف کی محفل جاری رہی۔

اس واقعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ فقراء کی یہ جماعتیں امراء کی نہ انصافی کے خلاف احتجاج کرتی تھیں اور اپنی آزادی کو برقرار رکھتے ہوئے عوام میں اس کا انتظام بھی کرتی تھیں۔

فقراء کی جماعتیں زندگی گزارنے کے مختلف طریقوں پر عمل کرتی تھیں۔ ایک جماعت وہ تھی، جو اولیاء اور صوفیا کے مزاروں پر مستقل رہائش رکھتی تھی۔ دنیا کے مسائل سے دور رہنے کا علاج، جو انہوں نے دریافت کیا تھا، وہ بھنگ اور چرس کا نشہ تھا۔ بھنگ کو بڑے شوق اور دلچسپی سے گھوٹا جاتا تھا اور پھر سب مل کر اسے پیتے تھے اور دنیا سے بخود اور مدہوش ہو جاتے تھے۔

 مزاروں پر لوگ ان فقیروں کے لیے دیگیں پکوا کر لاتے تھے لہٰذا یہ دن رات زیارت کے لیے آنے والوں میں گزارتے تھے۔ عرس کے موقع پر یہ گانے بھی گاتے تھے اور دھمال بھی ڈالا کرتے تھے۔ قوالیوں کے دوران ان پر وجد بھی طاری ہو جاتا تھا۔

 فقیروں کی دوسری جماعتیں کوئی مستقل رہائش نہیں رکھتی تھیں۔ یہ دربدر پھرتے تھے اور عام لوگ ثواب کے لیے انہیں کھانا کھلا کر ان کی دعاؤں کے منتظر رہتے تھے۔ نشہ ایک ایسی طاقتور چیز تھی، جو ان کی ذات کو مطمئن کرتی تھی۔ یہاں ہم چنڈو خانے کا ذکر بھی کریں گے، جہاں چلم اور حقے کے ذریعے افیون پی جاتی تھی مگر کچھ ایسے غریب نشئی ہوتے تھے، جو افیون کی معمولی قیمت بھی ادا نہیں کر سکتے تھے۔

مصری کسانوں کی زندگی کا تاریخی تجزیہ

ایسے افراد چنڈو خانے کے دروازے پر کھڑے ہو کر افیون پی کر دھواں چھوڑنے والوں کے دھوئیں سے نشہ پورا کرتے تھے۔ وہ  پھوکٹیے یعنی (مفت میں نشہ پورا کرنے والے) کہلاتے تھے۔

چنڈو خانہ اپنی گپ شپ اور افواہوں کی وجہ سے مشہور تھا۔ جب نادر شاہ نے دہلی پر قبضہ کیا تو چنڈو خانے سے ہی کسی نے یہ افواہ اڑائی کہ مغل شہنشاہ محمد شاہ رنگیلا نے نادر شاہ کو قتل کرا دیا ہے۔ اس افواہ پر یقین کرتے ہوئے دہلی کے لوگوں نے نادر شاہ کی فوج پر حملہ کر دیا، جس میں اس کے فوجی مارے گئے۔

 اس پر نادر شاہ کو غصہ آیا اور اس نے اپنی فوج کو حکم دیا کہ وہ دہلی کے شہریوں کا قتل عام کریں اور ان کے گھروں کو لوٹیں۔ چنڈو خانے کی اس اطلاع نے ہزاروں شہریوں کی جانیں لے لیں۔

 

نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو  کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔