برازيل کے جنگلات میں آگ، فوج طلب
ايميزون جنگلات ميں بھڑکنے والی آگ پر شديد عالمی رد عمل سامنے آیا ہے۔ صدر بولسونارو نے آگ پر قابو پانے کے ليے فوج بلا لی، جو آگ بجھانے اور متاثرہ علاقوں ميں مجرمانہ سرگرميوں ميں ملوث افراد کو پکڑے گی۔
ايميزون کے جنگلات ميں آگ سے ہماری صحت پہ کیا فرق پڑے گا؟
دنيا کے سب سے بڑے برساتی جنگل ايميزون کو ’زمين کے پھپھڑے‘ بھی کہا جاتا ہے اور اس کا ساٹھ فيصد حصہ برازيل ميں ہے۔ ايميزون کے درخت عالمی درجہ حرارت بڑھانے والی زيريلی کاربن ڈائی آکسائڈ کا سالانہ دو بلين ٹن اپنے اندر جزب کرتے ہیں۔ يہ دنيا کے بيس فيصد مختلف پودوں اور منفرد اقسام کا گھر بھی ہے۔
جنگلات ميں آگ لگنے کے واقعات ميں زبردست اضافہ
برازيل کے جنگلات ميں آگ لگنے کے اس سال اب تک پچہتر ہزار سے زائد واقعات پيش آ چکے ہيں۔ يہ تعداد پچھلے برس کے واقعات سے پچياسی فيصد زيادہ ہے۔ رواں سال آگ لگنے کے آدھے سے زیادہ واقعات ايميزون کے جنگلات سے رپورٹ ہوئے۔ واضح رہے کہ پيراگوائے، بوليويا اور ارجنٹائن کے جنگلات ميں بھی آگ لگنے کے واقعات تواتر سے جاری ہيں۔
آتش زدگی کا ذمہ دار کون ہے؟
ماہرين کے مطابق ايميزون ميں قدرتی طور پر آگ لگنے کے واقعات کم ہی پيش آتے ہيں۔ ايسے واقعات ميں عموماً انسانی ہاتھ ملوث ہوتا ہے۔ عام طور پر جنگلات کی زمين کو زراعت کے ليے صاف کرنے کے مقصد سے آگ لگائی جاتی ہے، جو اکثر قابو سے باہر ہو جاتی ہے۔ ايسے واقعات جولائی سے لے کر نومبر تک کے خشک موسم ميں زيادہ پيش آتے ہيں۔
ايميزون ميں آگ، ایک بین الاقوامی بحران
فرانسیسی صدر ايمانوئل ماکروں نے ایمیزون کے علاقے میں اس آگ کو ایک بین الاقوامی بحران قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ فرانس میں جی۔سیون کے سربراہان اس موضوع پر ہنگامی مشاورت کریں گے۔ برازیل کے صدر بولسونارو اور فرانس کے صدر ماکروں کے درمیان اس مسئلے سے نمٹے میں اختلافات کھل کر سامنے آئے ہیں اور دونوں کے درمیان سوشل میڈیا میں الزام تراشی بھی ہوئی۔
عالمی سطح پر احتجاج
اس مسئلے پر دنيا کے کئی بڑے شہروں ميں لوگوں نے برازيل کے سفارت خانوں کے باہر احتجاج کيا ہے۔ ايسا ہی ايک بڑا احتجاجی مظاہرہ برطانوی دارالحکومت لندن ميں بھی کيا گيا۔