1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بدقسمت کچی بستیاں، ایمنسٹی رپورٹ

23 مئی 2013

ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اپنی 2013ء کی رپورٹ میں دنیا بھر میں کچی بستیوں کے مکینوں کو بے گھر کرنے کے بڑھتے ہوئے رجحان کو ہدفِ تنقید بنایا ہے۔

https://p.dw.com/p/18cc3
تصویر: picture alliance / AP Images

رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال شہروں میں نئی تعمیرات کے لیے زمین حاصل کرنے کی غرض سے ہزارہا انسانوں کو اُن کے کچے عارضی گھروں سے نکال باہر کیا گیا۔ اس سلسلے میں ایمنسٹی نے خاص طور پر نائیجیریا کے شہر پورٹ ہارکورٹ کی مثال دی ہے، جہاں واقع ایک کچی بستی کو گرانے کے لیے 27 جون 2012ء کو قبل از دوپہر بلڈوزر لوگوں کے سروں پر آن پہنچے تھے۔

ڈوئچے ویلے سے باتیں کرتے ہوئے اس بستی سے بے گھر ہونے والے ایک شخص جِم ٹوم جارج نے بتایا:’’یہ ایک ایسا وقت تھا، جب زیادہ تر لوگ اپنے گھر پر نہیں تھے۔ اُنہوں نے ہماری بستی کے داخلی دروازے بند کر دیے اور پھر ہر چیز کو تہس نہس کرنا شروع کر دیا۔ اُنہوں نے ہمیں کوئی پیشگی اطلاع نہیں دی تھی۔ ہمیں نہیں پتہ تھا کہ اُس روز حکومت آئے گی اور ہمارے علاقے کو تباہ کر دے گی۔ ‘‘ اُس ایک روز کے اندر اندر بیس تا چالیس ہزار افراد نہ صرف اپنے رہائشی مکانات سے بلکہ زیادہ تر اُن مکانات کے اندر پڑی چیزوں سے بھی محروم ہو گئے۔

ایمنسٹی کی تازہ ترین رپورٹ 23 مئی کو جاری کر دی گئی ہے
ایمنسٹی کی تازہ ترین رپورٹ 23 مئی کو جاری کر دی گئی ہےتصویر: picture-alliance/dpa

وقت کے ساتھ ساتھ نائیجیریا کی حکومت اس طرح کی اور بھی کئی کچی بستیوں کو یہ کہتے ہوئے مسمار کر چکی ہے کہ وہاں حفظانِ صحت کی صورتِ حال بہت زیادہ خراب تھی۔ یہ نہیں دیکھا گیا کہ اپنے گھروں سے محروم ہو جانے والے انسان اب رہیں گے کہاں۔ جِم ٹوم جارج کے مطابق اب ان لوگوں کی حالت سخت خراب ہے اور غربت اور بھوک کے شکار یہ لوگ، جو کبھی ایک جگہ مل جُل کر رہتے تھے، اب چہار جانب بکھر چکے ہیں اور طرح طرح کے مصائب برداشت کر رہے ہیں۔

کچی بستیاں، شہری ترقی میں حائل

اپنی تازہ رپورٹ میں ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ نائیجیریا واحد ملک نہیں ہے، جہاں ایسا ہو رہا ہے۔ رپورٹ کے مطابق دنیا کے 36 ممالک میں کچی بستیاں جبری طور پر گرائی گئی ہیں، جن میں برازیل بھی شامل ہے، جہاں حکام فٹ بال کی عالمی چیمپئن شپ سے پہلے ضروری انفراسٹرکچر کی تعمیر کے لیے زمین حاصل کرنا چاہتے تھے۔

اگرچہ کئی ایک صورتوں میں ایسی بستیوں کو اس لیے بھی گرا دیا گیا کہ وہ حکام کے خیال میں شہر کے حسن کو متاثر کر رہی تھیں۔ تاہم متعدد صورتوں میں یہ بستیاں اس لیے گرا دی گئیں کہ وہ پُر کشش سرمایہ کاری کی راہ میں رکاوٹ بن رہی تھیں۔ شاپنگ سینٹرز، دفتری پلازے یا مہنگے ہوٹل بنانے کے لیے غریب غرباء کو گھر کی چھت سے بھی محروم کر دیا جاتا ہے۔

پاکستانی شہر لاہور کی ایک کچی بستی کا منظر
پاکستانی شہر لاہور کی ایک کچی بستی کا منظرتصویر: AP

زرِ تلافی کی بجائے گرفتاریاں

اپنے گھر سے محروم ہونے والے جِم ٹوم جارج کے مطابق پورٹ ہارکورٹ میں پولیس نے پیشگی خبردار نہ کرنے کے لیے بھی ایک جواز تلاش کر لیا۔ پولیس کے دعوے کے مطابق اُنہیں یہ پتہ چلا تھا کہ متعلقہ کچی بستی میں فائرنگ کا کوئی واقعہ ہوا ہے، اس لیے سکیورٹی کے ارکان بھیجے جا رہے ہیں:’’پھر بستی کے 120 افراد کو گرفتار کر کے حوالات میں ڈال دیا گیا۔‘‘

ایمنسٹی انٹرنیشنل سے وابستہ کرسٹیان ہانوسیک کے مطابق زیادہ تر کچی بستیوں کے گرائے جانے کے سلسلے میں بنیادی مسئلہ یہ بھی ہے کہ حکام اِن مکینوں کے ساتھ کسی اتفاقِ رائے پر پہنچنے کی سرے سے کوشش ہی نہیں کرتے بلکہ شروع ہی سے اُن کے خلاف بے رحمانہ طاقت استعمال کرتے ہیں۔ اگرچہ نائیجیریا میں بھی ایسے قوانین موجود ہیں، جن کے تحت اِن مکینوں کو ملکیت کی باقاعدہ دستاویزات نہ ہونے کے باوجود زرِ تلافی ملنے کا حق حاصل ہوتا ہے تاہم وہ اتنے غریب ہوتے ہیں کہ مقدمے بازی کے اخراجات بھی برداشت نہیں کر سکتے۔

برلن حکومت دباؤ ڈالے

ایمنسٹی انٹرنیشنل کے کرسٹیان ہانُوسیک کو امید ہے کہ اس تازہ رپورٹ کے بعد نائیجیریا کی حکومت محتاط طرزِ عمل اختیار کرے گی۔ وہ کہتے ہیں کہ جرمن حکومت کو بھی نائیجیریا کے ساتھ حکومتی سطح کے مذاکرات میں اس مسئلے کو اٹھانا چاہیے کیونکہ ایسی حکومتیں عام طور پر بین الاقوامی دباؤ کو نظر انداز نہیں کرتیں۔

A.Berger/aa/aba