بحیرہ روم یونین کا قیام اور اغراض و مقاصد
14 جولائی 2008پیرس میں منعقعد ہونے والی سن 1900 کی عالمی نمائش گاہ کی شاندارعمارت میں یورپی یونین کے ستائیس حکومتی اور ریاستی سربراہان اور بحیرہ روم پر آباد ملکوں کے رہنما ایک ہی میز پر جمع تھے۔
ان سب کا یہاں جمع ہونا ہی فرانسیسی صدر سارکوزی کی سب سے بڑی کامیابی تھی۔ اس موقع پر بہت سی مفید تجاویز سامنے آئیں جن میں بحیرہ روم کے علاقوں میں شمسی توانائی سے بجلی پیدا کرنا، ٹرانسپورٹ کے نظام کو بہتر بنانا بحیرہ روم میں بحری جہازوں کی آمد و رفت کے سسٹم کو جدید خطوط پر استوار کرنا اور ایک بحیرہ روم یونیورسٹی کے قیام کا منصوبہ بھی شامل ہے۔
فرانسیسی صدر سارکوزی کوامید ہے کہ بحیرہ روم پر آباد ملکوں کے ساتھ قریبی اشتراک عمل سے فرانس کی جانب رخ کرنے والے غیر قانونی تارکین وطن کی آمد کو روکا جا سکے گا۔ سارکوزی نے گزشتہ برس اپنے صدارتی کی مہم کے دوران بحیرہ روم یونین کا تصور پیش کیا تھا۔
تاہم ان بحیرہ روم پر آباد ملکوں کا ایک خصوصی کلب قائم کرنے کا خواب پورا نہ ہو سکا۔ وجہ یہ تھی کہ جرمن چانسلر انگیلا میرکل اس بات پر اڑی رہیں کہ بحیرہ روم یونین صرف پہلے سے موجود یورپی یونین کے ڈھانچوں کے اندر ہی قائم کی جا سکتی ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ سارکوزی کی پیش کردہ تجاویز کو سن 1995 میں یورپی یونین اور بحیرہ روم پر آباد ملکوں کے درمیان قائم کی گئی شراکت یعنی پارٹنر شپ کے اندر ہی سمویا جا سکتا ہے۔ تاہم سارکوزی نے اس کانفرنس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مشرق وسطیٰ کی امن کوششوں کوایک نئی تحریک بخشی۔ انہوں نے کانفرنس کے آغاز سے قبل ہی شام کے صدر بشار الاسد اور لبنان کے سربراہ مشعل سلیمان سے ملاقاتیں کیں۔ دونوں رہنماٴوں نے کانفرنس کے خاتمے پر ایک دوسرے کے ملک میں سفارت خانے کھولنے کا اعلان کیا۔
اسی طرح اسرائیل اور فلسطین کے درمیان بھی امن معاہدہ قائم ہونے کی جانب مثبت پیش رفت دکھائی دی۔ سارکوزی نے یقین دلایا کہ فرانس یورپی یونین کے موجودہ صدر کی حیثیت سے مشرق وسطیٰ کی امن کوششوں میں بھرپور ساتھ دے گا۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ کانفرنس کے دوران کئے جانے والے دعووں اور ارادوں پر کہاں تک عمل کیا جاتا ہے؟