1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بحیرہء جنوبی چین کا تنازعہ، ثالثی کون کرے؟

4 ستمبر 2012

اپنے دورہء انڈونیشیا کے موقع پر امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن نے اس ایشیائی ملک کے ساتھ اچھے اشتراک عمل کی تعریف بھی کی اور یہ امید بھی ظاہر کی کہ یہ ملک بحیرہء جنوبی چین کے تنازعے میں ثالث کا کردار ادا کر سکتا ہے۔

https://p.dw.com/p/1636A
تصویر: DW

انڈونیشیا کو جنوب مشرقی ایشیا میں اپنی جغرافیائی سیاسی پوزیشن کی وجہ سے امریکا اور خطّے میں اُس کے حلیف ممالک بالخصوص جاپان اور جنوبی کوریا کی خارجہ سیاست میں ایک اہم مقام حاصل ہے۔ خاص طور پر امریکا اور چین جنوب مشرقی ایشیا میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کی کوششیں کر رہے ہیں۔

رواں ہفتے کے اوائل میں اپنے دورہء انڈونیشیا کے موقع پر امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن نے بحیرہء جنوبی چین کے تنازعے پر بھی بات کی۔ اس سمندری علاقے میں چین بہت سے مقامات پر اپنی ملکیت کے دعوے کر رہا ہے اور اس سلسلے میں اُس کے ویت نام اور فلپائن کے ساتھ ہی نہیں بلکہ برونائی اور ملائیشیا کے ساتھ بھی تنازعات چل رہے ہیں۔ امریکا امید کر رہا ہے کہ انڈونیشیا آسیان کے رکن ملک کے طور پر خطّے کے ملکوں کو کوئی مشترکہ لائحہ عمل اختیار کرنے پر مائل کر سکتا ہے۔

امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن اپنے تازہ دورہء انڈونیشیا کے موقع پر میزبان ملک کے وزیر خارجہ کے ساتھ
امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن اپنے تازہ دورہء انڈونیشیا کے موقع پر میزبان ملک کے وزیر خارجہ کے ساتھتصویر: Reuters

جولائی میں منعقدہ آسیان کی اب تک کی آخری سربراہ کانفرنس کسی مشترکہ اختتامی اعلامیے کے بغیر ہی انجام کو پہنچ گئی تھی کیونکہ اس کانفرنس کا میزبان ملک کمبوڈیا اس تنازعے کو کانفرنس کے ایجنڈے میں ہی شامل کرنے کے لیے تیار نہیں تھا۔ آسیان کے چند ایک رکن ملکوں کے خیال میں اس کا قصور وار چین تھا، جس نے کمبوڈیا پر دباؤ ڈال کر اُسے ایسا کرنے پر مجبور کیا تھا۔ چین ان تنازعات کے حل کے سلسلے میں اب تک کثیر القومی مذاکرات کو رَد کرتے ہوئے دو طرفہ بات چیت پر اصرار کر رہا ہے۔

جکارتہ میں سینٹر فار اسٹریٹیجک اسٹڈیز CSIS سے وابستہ ماہر سیاسیات فلپس ویرموں کے مطابق کمبوڈیا میں آسیان کانفرنس کے موقع پر چین نے دکھا دیا تھا کہ اسے کتنا زیادہ اثر و رسوخ حاصل ہے۔

اگرچہ جنوب مشرقی ایشیائی ریاستوں کی تنظیم آسیان ایک غیر جانبدار اور آزاد قوت کے طور پر رہنا چاہتی ہے تاہم اب اُسے بیک وقت ایک دوسرے کی حریف دو بڑی طاقتوں کے اثر و رسوخ کا سامنا ہے۔ ویرموں کے مطابق روایتی طور پر سنگاپور، فلپائن اور تھائی لینڈ امریکا کے زیادہ قریب ہیں جبکہ چین کو میانمار، لاؤس اور کمبوڈیا میں زیادہ اثر و رسوخ حاصل ہے۔ انڈونیشیا اور ملائیشیا اپنی اپنی غیر جانبدارانہ اور آزاد پوزیشن منوانے کے لیے کوشاں ہیں۔

چینی وزیر خارجہ یانگ جی چی
چینی وزیر خارجہ یانگ جی چیتصویر: picture-alliance/dpa

انڈونیشیا کے چین کے ساتھ تجارتی تعلقات بڑی تیزی سے پھل پھول رہے ہیں اور جکارتہ حکومت بحیرہء جنوبی چین کے تنازعے کو زیادہ پھیل جانے سے بچانے کے لیے مذاکرات کی راہ اختیار کرنے پر زور دے رہی ہے۔ انڈونیشی وزیر خارجہ مارٹی نتالےگاوا نے گزشتہ مہینوں کے دوران ہمسایہ ممالک اور چین کے ساتھ متعدد مذاکرات کیے ہیں۔ اگست کے اوائل میں چینی وزیر خارجہ یانگ جی چی نے زور دے کر کہا تھا کہ چین اور آسیان اس تنازعے کو سفارتی طریقے سے حل کرنا چاہتے ہیں۔

گزشتہ کچھ برسوں سے انڈونیشیا بین الاقوامی اسٹیج پر زیادہ بڑا کردار ادا کرنے کے لیے کوشاں ہے۔ ایسا اس لیے ممکن ہے کہ اب انڈونیشیا جنوب مشرقی ایشیا میں ایک مستحکم جمہوریت کا حامل ملک بن چکا ہے۔ امریکی تنظیم فریڈم ہاؤس کے 2011ء کے فریڈم انڈیکس میں انڈونیشیا کو ایک آزاد ملک کی حیثیت دی گئی ہے جبکہ اس معاملے میں ملائیشیا، سنگاپور، فلپائن اور تھائی لینڈ کو اُس سے بہت پیچھے رکھا گیا ہے۔ سیاسی استحکام کی وجہ سے بڑے پیمانے پر اقتصادی ترقی بھی دیکھنے میں آ رہی ہے اور اقتصادی نمو کی شرح گزشتہ کچھ برسوں سے چھ فیصد سے اوپر جا رہی ہے۔

امریکا ہی نہیں بلکہ چین بھی مالی امداد اور تعمیراتی منصوبوں کی وساطت سے انڈونیشیا کے قریب آنے کی کوشش کر رہا ہے۔ فلپس ویرموں کے مطابق چین نے انڈونیشیا کو فوجی ہتھیاروں کی بھی پیشکش کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ امریکی وزیر خارجہ کلنٹن کے دورے کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ اِس خطّے میں چین کے اثر و رسوخ کو محدود بنایا جائے۔

A. Budiman/aa/ai