1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

امریکی ڈیموکریٹک انتظامیہ کی ایک مجوزہ بل کی منظوری کی کوشش

26 جنوری 2021

امریکا میں تارکین وطن کے حقوق کے لیے سرگرم کارکن ایک ایسے بل کی منظوری کی امید کر رہے ہیں جو 11 ملین باشندوں کے لیے امریکی شہریت کے حصول کی راہ ہموار کر دے گا۔

https://p.dw.com/p/3oRKZ
USA Chicago 2018 | Protest gegen Trennung von Einwandererfamilien
تصویر: Getty Images/AFP/J. Young

امریکا کے نئے صدر جوبائیڈن کے مجوزہ بل کی شکل میں تارکین وطن کے حقوق کے لیے سرگرم کارکنوں کو ایک خوش امیدی کی کرن نظرآرہی ہے۔

کیپیٹل ہل میں ڈیموکریٹک انتظامیہ ایک مجوزہ بل کی منظوری کی کوشش میں ہے۔ نئے صدر جو بائیڈن نے اپنے ابتدائی ایام میں ہی یہ مجوزہ بل پیش کر دیا جس کی منظوری 11 ملین انسانوں کے لیے امریکی شہریت کی حصول کا سبب بن سکتی ہے۔

رواں ہفتے پیر کو نیشنل گروپس نے، جن میں یونائیٹڈ ڈریم اور یونائیٹڈ فارم ورکرز فاؤنڈیشن شامل ہیں، ملٹی ملین ڈالر کی مہم  #WeAreHome  شروع کی تھی۔

 اس مہم کا آغاز فیس بک اور دوسرے سوشل میڈیا اشتہارات سے ہوا ہے اور اس کا مقصد قانون دانوں اور با اثر حلقوں تک پہنچنا ہے۔

USA - Proteste DACA
ٹرمپ کی تارکین وطن کے خلاف پالیسی ایک عرصے سے احتجاج اور مظاہروں کا سبب بنی ہوئی ہے۔تصویر: picture-alliance/ZUMAPRESS/W. Ping

مطالبات کیا ہیں

اس مہم میں شامل پہلی ویڈیو میں ایک نوجوان خاتون اعلان کرتی سنائی دیتی ہیں، ''ہم اپنےگھر میں ہیں۔‘‘ ویڈیو میں تارکین وطن افراد کو صفائی اور صحت جیسے شعبوں میں ضروری ملازمتوں پر فائز دکھایا گیا ہے۔ یہ افراد مزید کہتے سنائی دیتے ہیں ، ''ہم یہ دیکھ بھال کا کام کر رہے، اس کے باوجود وہ کہتے ہیں کہ ہمارا اس ملک سے کوئی تعلق نہیں ہے۔‘‘ تارکین وطن کے حقوق کے لیے سرگرم عناصر کی طرف سے امریکا کی ''امیگریشن پالیسی‘‘میں مثبت تبدیلیوں کی کوشش ایک طویل عرصے سے جاری ہے۔یہ معاملہ امریکا میں ریپبلکن اور ڈیموکریٹس کی تقسیم کا سبب بننے والے اہم اور انتہائی شدید نوعیت کے معاملات میں سے ایک ہے۔

بل کی منظوری کیسے ہو گی؟

اگرچہ اب ڈیموکریٹس کو 100 میں سے 50 سینیٹرز کا ووٹ حاصل ہے اور نائب صدر کاملا ہیرس کا ایک فیصلہ کُن ووٹ بھی اس میں شامل ہونا ہے تاہم بل پاس ہونے کے لیے کم از کم 60 ووٹوں کی ضرورت ہوگی۔

Symbolbild | Famielentrennung Mexiko USA
میکسیکو میں خاندانوں کو جدا رکھنے سے متعلق ٹرمپ کی پالیسی پر احتجاج۔تصویر: picture-alliance/dpa/Pacific Press/G. Holtermann-Gorden

دوسری جانب مخالفین نے خود  اپنی سوشل میڈیا  مہم شروع کرنے اور اس کے لیے ٹی وی اور ریڈیو پر اشتہارات کا سہارا لینے کا عزم کر رکھا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ  وہ ''امیگریشن پالیسی‘‘ کے سلسلے میں اور اپنی مخالفت جاری رکھتے ہوئے کانگریس کے اراکین کو خط لکھیں گے اور ان سے ورچوئل ملاقات  کریں گے۔

لیکن بل کو پاس کروانے کے لیے مہم کے منتظمین کا کہنا ہے کہ وہ نئی انتظامیہ کے جوش و ولولے سے لطف اندوز ہو رہے ہیں اور  امریکا میں لوگوں کو شہریت حاصل کرنے کا موقع دیے جانے کی ہر ممکن حمایت کریں گے۔

Einwanderungspolitik in den USA
وائٹ ہاؤس کے سامنے تارکین وطن کا احتجاج۔تصویر: Reuters/J.Roberts

خوش امیدی

  پیرو میں جنم لینے والی لو ریلا پرائیلی ''کمیونٹی چینج ‘‘ مہم  کی شریک صدر ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ''یہ تحریک پختہ ہوگئی ہے۔‘‘ ان کا ماننا ہے کہ اس مہم سے وابستہ عناصر تجربہ کار اور زیادہ متنوع  ہو گئے ہیں۔پرائیلی، جو اب 28 سال کی ہیں، 10 سال کی عمر میں امریکا آ گئی تھیں۔ انہیں امریکا ایک حادثے میں ٹانگ کھونے کے بعد بہتر علاج معالجہ حاصل  کرنے کے لیے لایا گیا تھا۔ وہ نوعمری میں ہی ایک تارکین وطن کارکن بن گئی تھیں۔ 

ک م / ا ب ا (اے پی)

 

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں