1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
معاشرہجرمنی

ہر تیسرے جرمن پولیس اہلکار نے ڈیوٹی پر نسل پسندانہ کلمات سنے

6 اکتوبر 2024

جرمن پولیس میں نسل پسندانہ رویوں کا جائزہ لینے کے لیے کرائے گئے دو مختلف جائزوں میں تقریباﹰ ایک تہائی پولیس اہلکاروں نے بتایا کہ انہوں نے ڈیوٹی کے دوران اپنے ساتھیوں سے کم از کم ایک بار نسل پرستانہ کلمات ضرور سنے تھے۔

https://p.dw.com/p/4lPNE
جرمن شہر کیمنٹس میں ایک احتجاجی اجتماع کے موقع پر تعینات پولیس اہلکار
جواب دہندگان کا کہنا تھا کہ انہوں نے اپنے ساتھیوں کے منہ سے نسل پرستانہ تبصرے 10 سے زائد مرتبہ سنےتصویر: Imago/Max Stein

سرکاری سطح پر کرائی گئی اس تحقیق میں شامل پانچ فیصد جواب دہندگان کا کہنا تھا کہ انہوں نے اپنے ساتھیوں کے منہ سے نسل پرستانہ تبصرے 10 سے زائد مرتبہ سنے۔

محققین نے وفاقی اور ریاستی سطح پر موجود پولیس افسران سے پوچھا کہ ان کے ساتھی عام شہریوں اور دیگر پولیس افسران کے ساتھ کس انداز سے گفتگو کرتے ہیں؟ گفتگو کے دوران ان کا رویہ دوستانہ اور پیشہ وارانہ ہوتا ہے یا وہ کوئی منفی رویہ رکھتے ہیں۔
سروے کے شرکاء میں سے 40 فیصد سے زائد کا کہنا تھا کہ اہلکاروں کے درمیان صنفی تعصب پر مبنی تبصرے نسبتاﹰ عام ہیں۔ ان شرکاء میں سے 10 فیصد افسران ایسے بھی تھے، جنہوں نے ایک سال کے دوران 10 سے زائد مرتبہ دیگر پولیس اہلکاروں کو صنفی تعصب کا اظہار کرتے سنا۔ 
تاہم تین فیصد افراد کا یہ بھی کہنا تھا کہ انہوں نے گزشتہ برس اپنے کچھ ساتھیوں کی جانب سے بدعنوانی کے رویوں کا مشاہدہ بھی کیا۔

اس سروے کے تنائج سے ایسے واقعات کی مجموعی تعداد کا تعین اس لیے نہیں کیا جا سکتا کیونکہ ممکن ہے کہ کسی پولیس اہلکار کی جانب سے کی جانے والی بدعنوانی کا مشاہدہ اس کے ایک سے زائد ساتھیوں نے کیا ہو اور اس طرح حتمی تعداد کے حوالے سے غلطی کا خدشہ موجود رہتا ہے۔ 

جرمن شہر کولون میں کارنیوال کے ایک جلوس کے شرکاء اور ان کی حفاظت کے لیے وہاں موجود صوبائی پولیس کا ایک اہلکار
سروے کے ذریعے محض یہ جانچنے کی کوشش کی گئی کہ سروے کے شرکاء کا کسی ایسے واقعے پر ردعمل کیسا تھاتصویر: Getty Images/V. Hartmann

مزید برآں جن لوگوں نے پولیس اہلکاروں کی جانب سے صنفی تعصب یا کسی قسم کی بدعنوانی کا مشاہدہ کیا، انہوں نے اپنے ساتھیوں کے ان منفی رویوں کے خلاف عملی طور پر کوئی اقدامات نہیں کیے۔

اس رپورٹ کے مصنفین نے یہ بات واضح کی کہ اگر کسی جواب دہندہ نے خود کسی واقعے کی شکایت درج نہیں کرائی، تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ واقعہ رپورٹ ہی نہیں ہوا۔ ہو سکتا ہے کہ کسی تیسرے شخص نے اسے رپورٹ کیا ہو۔
تاہم اس سروے کا دائرہ کار انفرادی تجربے اور اقدامات تک ہی محدود تھا۔ اس کے ذریعے محض یہ جانچنے کی کوشش کی گئی کہ سروے کے شرکاء کا کسی ایسے واقعے پر ردعمل کیسا تھا؟

پولیس میں بڑھتا ہوا اسلاموفوبیا

پولیس افسران کی تعلیم و تربیت کے لیے قائم جرمن پولیس یونیورسٹی کے ایک مطالعے میں جائزہ لیا گیا کہ پولیس افسران مختلف اقلیتوں کے ساتھ کیسا سلوک کرتے ہیں اور کیا ان کے نظریات میں آمرانہ رجحانات موجود ہیں؟

مشرقی جرمن شہر ڈریسڈن میں پولیس اہلکار پٹرول بم حملے کا نشانہ بننے والی ایک مقامی مسجد کے داخلی دروازے کے سامنے کھڑے ہوئے
دوسرے آن لائن سروے میں مسلمانوں سے متعلق متعصبانہ خیالات کا اظہار کرنے والے افراد کی شرح 17 فیصد تک پہنچ گئیتصویر: picture-alliance/AP Photo/J. Meyer

اس حوالے سے نومبر 2021 سے اکتوبر 2022 کے درمیان کیے جانے والے پہلے سروے میں شریک 11 فیصد افراد نے مسلمانوں کے بارے میں متعصبانہ خیالات کا اظہار کیا۔ نومبر سے مارچ 2023 کے درمیان کیے گئے دوسرے سروے میں ان افراد کی شرح بڑھ کر 17 فیصد تک پہنچ گئی۔
جرمن وزیر داخلہ نینسی فیزر نے سروے کے نتائج پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا، ’’دائیں بازو کی انتہا پسندی، نسل پرستی اور دیگر قومیتوں سے نفرت پر مبنی رویوں کو بالکل برداشت نہیں کیا جائے گا۔‘‘ اس سروے کا آغاز سابق وزیر داخلہ ہورسٹ زیہوفر کے دور میں ہوا تھا۔ 

ان کا مزید کہنا تھا کہ حکومت بڑھتے ہوئے تعصب اور نسلی امتیاز کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہے۔

تاہم انہوں نے اس بات کا اعتراف بھی کیا کہ پولیس افسران کٹھن بلکہ بعض اوقات جان لیوا حالات میں دن رات اپنے فرائض انجام دیتے ہیں اور وہ قانون کی حکمرانی اور جمہوریت کے محافظوں کے طور پر قابل احترام ہیں۔

اسرائیلی قونصل خانے کے قریب پولیس کی فائرنگ سے مسلح شخص ہلاک


ح ف / ص ز  (ڈی پی اے)