1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایک اور سیاہ فام شخص کی امریکی پولیس کے ہاتھوں ہلاکت

14 اپریل 2022

امریکی ریاست مشیگن میں پولیس نے ایک سیاہ فام نوجوان کو گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ اس واقعے کی ویڈیو سامنے آنے کے بعد بُدھ کی شام مشیگن کے شہر گرینڈ ریپڈس میں مظاہرین سڑکوں پر نکل آئے۔

https://p.dw.com/p/49xWF
USA | Protest gegen Polizeigewalt nach den Tod von Patrick Lyoya in Grand Rapids
تصویر: Joel Bissell/Kalamazoo Gazette/AP Photo/picture alliance

امریکی ریاست مشیگن کی پولیس کی طرف سے جاری کی گئی ویڈیو فوٹیج میں ایک پولیس آفیسر کو ایک سیاہ فام نوجوان کے سر پر گولی مار کر اُسے ہلاک کرتے دیکھا جا سکتا ہے۔ اس فوٹیج کے جاری کیے جانے کے بعد مشیگن کے شہریوں میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی۔ شہر گرینڈ ریپڈس میں سیاہ فام شہریوں کے خلاف امریکی پولیس کے مظالم اور نسل پرستانہ رویے کے خلاف سراپا احتجاج بنے ہوئے مظاہرین سڑکوں پر نکل آئے ۔ مظاہرین ' نو جسٹس، نو پیس‘ یعنی ' انصاف نہیں تو امن نہیں‘ کے نعرے لگا رہے تھے۔

ہوا کیا تھا؟

یہ واقعہ چار اپریل کو اُس وقت رونما ہوا جب ایک امریکی پولیس آفیسر، جس کا نام ظاہر نہیں کیا گیا ہے، نے پیٹرک لییویا نامی ایک سیاہ فام شخص کے سر پر گولی مار کر اُسے ہلاک کر دیا۔ اس واقعے کی ویڈیو فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے کہ پولیس آفیسر اور  یہ شخص ایک دوسرے سے گتھم گتھا ہیں۔ پولیس آفیسر پیٹرک کی کمر پر سوار ہے۔ اس ویڈیو میں واضح طور پر اس پولیس افسر کو 26  سالہ پیٹرک کے سر پر گولی مارتے دیکھا گیا۔ یہ واقعہ پیٹرک لییویا کے گھر کے سامنے پیش آیا۔

امریکا، پولیس فائرنگ سے سیاہ فام کی موت، پرتشدد مظاہرے جاری

دوسری ویڈیو فوٹیج میں دیکھا گیا کہ پولیس آفیسر نے ابتدائی طور پر لییویا کو ایک ایسے لائسنس کیساتھ گاڑی چلانے سے روکا جس کا تعلق اس گاڑی سے نہیں تھا۔ پولیس کی طرف سے پکڑنے جانے سے بچنے کے لیے شخص پولیس سے بھاگنے کی کوشش کر  رہا تھا۔ گرینڈ ریپڈس کے نئے پولیس چیف ایرک ونسٹروم کے بقول لییویا پولیس آفیسر کے ٹیزر کو پکڑنے کی کوشش میں تھا۔ پولیس چیف ونسٹروم نے مزید کہا کہ انہوں نے شفافیت کی خاطر اس واقعے کی فوٹیج جاری کی۔ وہ کہتے ہیں، ''میں اسے ایک المیے کے طور پر دیکھتا ہوں۔ یہ میرے لیے ایک مسلسل اُداسی کا باعث ہے۔ ‘‘

USA | Protest gegen Polizeigewalt nach den Tod von Patrick Lyoya in Grand Rapids
مشیگن میں مظاہرہتصویر: Joel Bissell/Kalamazoo Gazette/AP Photo/picture alliance

لیویا کون تھا؟

پیٹرک لییویا اصل میں ڈیموکریٹک ریپیلک آف کانگو سے تعلق رکھتا تھا۔ وہ اپنے ملک میں تشدد اور بدامنی سے بھاگ کر بطور پناہ گزین امریکہ آیا تھا۔ وہ اپنے پانچ بھائی بہن اور دو کم سن بیٹیوں کو پیچھے چھوڑ گیا ہے۔ اس کے گھر والوں سے بات چیت کرنے کے بعد مشیگن کے ڈیموکریٹ گورنر گریچن وٹمر نے بتایا کہ  پیٹرک لییویا اپنے ملک میں فسادات اور تشدد سے بھاگ کر بطور پناہ گزین امریکہ آیا تھا۔ گورنر کے بقول، ''ابھی تو اُس کی پوری زندگی اُس کے آ گے پڑے تھی۔‘‘

پولیس تشدد

یہ مہلک واقعہ امریکہ میں سیاہ فام باشندوں  کے خلاف پولیس تشدد پر ملک گیر سطح پر آئے دن ہونے والے مظاہروں اور نسل پرستانہ تشدد کے خاتمے کے لیے کیے جانے والے عوامی احتجاج  کے درمیان سامنے آیا ہے۔  جس طرح مئی 2020 میں مینیا پولس شہر میں جارج فلائیڈ کے پولیس کے ہاتھوں بیہمانہ طریقے سے ہلاکت کے بعد امریکہ بھر میں سیاہ فام باشندوں کے ساتھ یکجہتی و ہمدردی کا اظہار کرنے والے امریکی باشندے سڑکوں پر نکل آئے تھے۔ وہاں سے نسل پرستی اور سیاہ فام باشندوں پر تشدد کے خاتمے کی مہم ''بلیک لائیوز میٹر‘‘ شروع ہوئی اسی طرح ایک بار پھر احتجاج کرنے والے سڑکوں پر نکل آئے ہیں اور ''بلیک لائیوز میٹر‘‘ کے بینرز کے ساتھ پولیس حکام سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ  پیٹرک لییویا پر فائرنگ کرنے والے پولیس آفیسر کا نام ظاہر کیا جائے۔  

یہ بھی پہلی بار نہیں ہوا کہ  گرینڈ ریپڈس کی پولیس نسلی تشدد میں ملوث ہوئی۔ یہ شہر بریونا ٹیلر کی جائے پیدائش تھی جسے پولیس نے 2020 میں ایک چھاپے کے دوران ہلاک کر دیا تھا۔ اس کے بعد شہر نے اپنی ایک سڑک کا نام بدل کر بریونا ٹیلر وے رکھ دیا تھا۔

ک م/ا ب ا )اے پی، اے ایف پی(