1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایپک سمٹ میں چینی کامیابیاں، تبصرہ

Hans Sproß / امجد علی12 نومبر 2014

چین نے سن 2001ء کے بعد ایشیا پیسیفک اکنامک فورم (ایپک) کے سربراہ اجلاس کی پہلی بار میزبانی کی۔ ڈی ڈبلیو کے ہنس شپروس کے مطابق چینی صدر شی جن پِنگ نے چینی مفادات کے سلسلے میں ایپک کے اسٹیج کو کامیابی کے ساتھ استعمال کیا۔

https://p.dw.com/p/1Dlp5
چینی صدر شی جن پنگ
چینی صدر شی جن پنگتصویر: Reuters/G. Chai Hin

ایپک سربراہ اجلاس کے دوران صنعتی شعبے اور ٹریفک کے لیے نافذ کی گئی عارضی پابندیوں کے باعث چینی دارالحکومت بیجنگ کی فضا عام دنوں کے مقابلے میں صاف ستھری تھی اور چینی حکام کے پہلے سے طے شُدہ پروگرام کے عین مطابق سروں پر نیلا آسمان نظر آ رہا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ سمٹ میں شریک مبصرین اور بیجنگ کے شہریوں نے انٹرنیٹ پر اس سمٹ کو ’ایپک بلیو‘ کا نام دے دیا تھا۔ ریڈ کارپٹ پر اور پریس کے کیمروں کے سامنے بھی سب کچھ ویسے ہی ہوتا رہا، جیسے چینی حکام نے سوچا تھا۔

جاپان نے اپنے وزیر اعظم شینزو آبے اور چینی صدر شی کے درمیان ملاقات کی خواہش کی تھی تاہم بیجنگ حکومت نے اس ملاقات کے حوالے سے آخر وقت تک ابہام برقرار رکھا۔ گریٹ ہال آف دی پیپل میں شینزو آبے کو چند لمحے اکیلے ہی کیمروں کے سامنے گزارنے پڑے، پھر کہیں شی نے آ کر کافی سرد مہری سے وہ مصافحہ کیا، جو ایک طرح سے چینی جاپانی تعلقات پر جاری جمود کے خاتمے کی علامت تھا۔ اس سے پہلے ہی دونوں ممالک کے سفارت کاروں کے درمیان اعتماد سازی کے ایسے اقدامات پر اتفاق ہو چکا تھا، جن کا مقصد جزائر کے تنازعے میں شدت کو روکنا ہے۔ تحریری طور پر یہ بات بھی طے کر دی گئی کہ دونوں فریق متعلقہ سمندری علاقوں میں ’کشیدگی کے حوالے سے مختلف موقف‘ رکھتے ہیں۔

گریٹ ہال آف دی پیپل میں شینزو آبے کو چند لمحے اکیلے ہی کیمروں کے سامنے گزارنے پڑے، پھر کہیں شی نے آ کر کافی سرد مہری سے وہ مصافحہ کیا، جو ایک طرح سے چینی جاپانی تعلقات پر جاری جمود کے خاتمے کی علامت تھا
گریٹ ہال آف دی پیپل میں شینزو آبے کو چند لمحے اکیلے ہی کیمروں کے سامنے گزارنے پڑے، پھر کہیں شی نے آ کر کافی سرد مہری سے وہ مصافحہ کیا، جو ایک طرح سے چینی جاپانی تعلقات پر جاری جمود کے خاتمے کی علامت تھاتصویر: Reuters

بیجنگ حکومت کے لیے یہ ایک بڑی کامیابی ہے کہ اگرچہ اب تک کے جاپانی سرکاری موقف کے مطابق کوئی ایسی چیز تھی ہی نہیں، جس پر مذاکرات کیے جائیں، اب جزائر کا تنازعہ دونوں ممالک کے دو طرفہ ایجنڈے پر آ گیا ہے۔

جاپانی چینی کشیدگی کی رکاوٹ دور ہو جانے کے بعد میزبان شی جن پنگ نے اپنی پوری توجہ آزادانہ تجارت کے پروگرام پر مرکوز کر دی اور ایک اعتبار سے اپنی دوسری سفارتی کامیابی حاصل کی۔ ایپک سمٹ کے اختتام پر اُنہوں نے ایشیا پیسیفک فری ٹریڈ زون کی جانب ایک تاریخی قدم‘ کا اعلان کیا، گو قریب سے دیکھنے پر یہ قدم اتنا بڑا نہیں ہے۔ وہ اس لیے کہ پہلے دو سال تک ایف ٹی اے اے پی نامی اس چینی پروگرام کی جانچ پڑتال کی جائے گی کہ یہ کس حد تک قابلِ عمل ہے۔

اس ’روڈ مَیپ‘ پر اتفاق ہو جانا بھی چین کے لیے ایک بڑی کامیابی اس لیے ہے کہ بیجنگ کے آزادانہ تجارت کے اس پروگرام کی وجہ سے امریکا کا آزادانہ تجارت کا ٹرانس پیسیفک پارٹنرشپ (ٹی پی پی) پروگرام پس منظر میں چلا گیا۔ اس سمٹ کے آغاز سے کچھ ہی پہلے امریکی صدر باراک اوباما نے ٹی پی پی کے قیام کے حوالے سے عنقریب ایک بڑی پیشرفت کا اعلان کیا تھا۔

آزادانہ تجارت کے یہ دونوں پروگرام ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ امریکا کے تجویز کردہ ٹی پی پی پروگرام میں چین شامل نہیں ہے جبکہ چین کے تجویز کردہ ایف ٹی اے اے پی پروگرام میں ایپک کے تمام رکن ملک شامل ہیں۔ دوسرا فرق یہ ہے کہ (بارہ ممالک پر مشتمل) ٹی پی پی میں ایک حقیقی فری ٹریڈ بلاک کا قیام مقصود ہے، جس میں تجارتی رکاوٹیں بڑی حد تک ختم کر دی جائیں گی۔

ایپک سمٹ کے موقع پر چین اور روس کے صدور شی جن پنگ اور ولادیمیر پوٹن کی ملاقات کا ایک منظر
ایپک سمٹ کے موقع پر چین اور روس کے صدور شی جن پنگ اور ولادیمیر پوٹن کی ملاقات کا ایک منظرتصویر: Reuters

چین کے فری ٹریڈ پروگرام کا مقصد کچھ اور ہے۔ چین آزادانہ تجارت کے دو طرفہ سمجھوتوں کے لیے ایک سازگار فضا کے قیام کا خواہاں ہے۔ اس سمٹ سے کچھ ہی پہلے ایسا ہی ایک سمجھوتہ چین نے جنوبی کوریا کے ساتھ طے کیا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بحیرہٴ جنوبی چین میں علاقائی تنازعات کو بھی چین اسی طرح دو طرفہ بنیادوں پر طے کرنا چاہتا ہے۔

شی جن پنگ، جنہیں دَینگ سیاؤ پنگ کے بعد سے چین کا طاقتور ترین رہنما تصور کیا جاتا ہے، ایپک کے اسٹیج پر اپنی سرگرمیوں کو ایک کامیابی سے تعبیر کر سکتے ہیں۔ اُنہوں نے سب کی توجہ 1989ء میں قائم ہونے والے ایپک فورم کے اصل مقصد یعنی آزادانہ تجارت کی طرف مرکوز کروا دی ہے، جو عالمگیر اقتصادی ترقی اور خوشحالی میں اضافے کا سبب بن سکتی ہے۔ مذاکرات کے اختتام پر شی جن پنگ اور باراک اوباما نے فضا کے لیے ضرر رساں گیسوں میں کمی کے حوالے سے ایک تاریخی سمجھوتے کا بھی اعلان کیا۔

اس سمجھوتے کی رُو سے امریکا 2025ء تک 2005ء کے مقابلے میں ضرر رساں گیسوں کے اخراج میں چھبیس تا اٹھائیس فیصد کی کمی لائے گا۔ چین نے 2030ء تک قابل تجدید توانائیوں کے استعمال کو بیس فیصد تک بڑھانے کا اعلان کیا ہے۔ شی اور اوباما نے ایسے تمام وسائل بروئے کار لانے کی بھی یقین دہانی کروائی، جن کے ذریعے آئندہ برس پیرس میں موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے مذاکرات کسی سمجھوتے پر پہنچ سکیں گے۔