این ایس اے نے یومیہ لاکھوں ٹیکسٹ میسجز جمع کیے، رپورٹ
17 جنوری 2014روزنامہ گارڈیئن نے یہ بات اپنی ایک رپورٹ میں بتائی ہے جو جمعرات کو شائع کی گئی۔ این ایس اے کے جاسوسی پروگرام کے حوالے سے گاڑدیئن اور برطانیہ کے چینل فور نیوز نے ایک مشترکہ تفتیش کی جو نیشنل سکیورٹی ایجنسی (این ایس اے) کے سابق ملازم ایڈورڈ سنوڈن کی جانب سے ذرائع ابلاغ کو فراہم کردہ معلومات کی بنیاد پر کی گئی۔
ایڈورڈ سنوڈن جاسوسی کے پروگرام پرزم کا انکشاف کرنے پر امریکا کو مطلوب ہیں۔ اس پروگرام کے بارے میں معلومات ذرائع ابلاغ کو دینے کے بعد وہ ہانگ کانگ فرار ہو گئے تھے۔ وہاں سے وہ گزشتہ جون میں ماسکو پہنچے تاہم امریکا کی جانب سے شہریت کی منسوخی کی وجہ سے مزید سفر نہ کر سکے اور ماسکو ایئرپورٹ کے ٹرانزٹ زون میں ہی ٹھہرے رہے۔ گزشتہ برس اگست میں روس نے انہیں ایک سال کے لیے سیاسی پناہ دے دی تھی۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق چینل فور نیوز کے ساتھ مشترکہ تفتیش کا حوالہ دیتے ہوئے گارڈیئن نے کہا ہے کہ این ایس اے یہ معلومات ایک پروگرام کے ذریعے جمع کرتی رہی ہے جس کا کوڈ نام ’ڈِش فائر‘ ہے اور یہ پروگرام وسیع تر معلومات اکٹھی کرنے کی اہلیت رکھتا ہے۔
اس اخبار کے مطابق ان دستاویزات سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ برطانوی جاسوسی ادارے جی سی ایچ کیو نے برطانیہ میں لوگوں کے پیغامات جانچنے کے لیے این ایس اے کا ڈیٹا استعمال کیا۔ رپورٹ کے مطابق جی سی ایچ کیو نے امریکی فون نمبروں کو جمع کردہ معلومات سے الگ کیا جبکہ برطانیہ سمیت دیگر ملکوں کے فون نمبر رکھ لیے گئے۔
اس رپورٹ میں این ایس کی ایک پریزینٹیشن کا حوالہ دیا گیا ہے جو 2011ء میں دی گئی تھی۔ اس کا عنوان تھا: ’’ایس ایم ایس ٹیکسٹ میسجز: سونے کی ایک کان جس کا فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔‘‘
گارڈیئن نے اس رپورٹ میں مزید کہا: ’’این ایس اے نے ٹیکسٹ میسجز کے ایک بڑے ڈیٹابیس کو وسیع پیمانے پر استعمال کیا اور اس کے ذریعے لوگوں کے سفری منصوبے، روابط اور مالیاتی ادائیگیوں کی تفصیلات بھی جمع کی گئیں۔ ان افراد کی معلومات بھی اکٹھی کی گئیں جن پر کسی غیرقانونی سرگرمی میں ملوث ہونے کا شبہ نہیں تھا۔
واضح رہے کہ امریکی صدر باراک اوباما کی جانب سے آج این ایس اے کے جاسوسی کے پروگراموں کے لیے اصلاحات کا اعلان بھی متوقع ہے۔ امریکی حکام کے مطابق اوباما یہ سفارش نہیں کریں گے کہ فون سے متعلق ڈیٹا کس کے کنٹرول میں ہونا چاہیے۔ خبر رساں ادارے اے پی کے مطابق ان حکام کا کہنا ہے کہ اوباما یہ فیصلہ اٹارنی جنرل، انٹیلیجنس کمیونٹی اور کانگریس پر چھوڑیں گے۔