ایشیا میں ویلینٹائن ڈے کی مخالفت اور حمایت
14 فروری 2017آسٹریلیا، ملائیشیا اور سنگاپور میں انٹرنیٹ پر محبت کی تلاش میں سرگرداں افراد کو ’آن لائن فراڈ اسکیموں‘ سے خبردار کیا گیا ہے جبکہ جاپان میں ایسی احتجاجی ریلیاں نکالی گئی ہیں، جن میں عوامی مقامات پر بوس وکنار پر پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ جاپان میں ’کاکو ہیڈو‘ نامی مارکسی گروپ کے مردوں کا کہنا تھا کہ اس طرح ان کے جذبات کو ٹھیس پہنچائی جاتی ہے۔ اس گروپ کے تعلقات عامہ کے سربراہ آکی موٹو کا نیوز ایجنسی اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’ہمارا مقصد یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ محبت کو کچل دیا جائے۔‘‘
گزشتہ روز پاکستان میں بھی اسلام آباد ہائی کورٹ نے اس ’تہوار‘ پر یہ کہتے ہوئے پابندی عائد کر دی تھی کہ یہ ’مغرب سے درآمد شدہ ایک نامناسب تہوار‘ ہے۔ پاکستان میں حالیہ کچھ عرصے کے دوران نوجوانوں میں ایک دوسرے کو چاکلیٹس، کارڈز اور پھولوں جیسے تحائف دینے میں اضافہ ہوا ہے۔ دوسری جانب پاکستانی میڈیا کو بھی یہ ہدایات جاری کی گئی ہیں کہ وہ اس دن کی تشہیر میں کوئی کردار ادا نہ کرے۔
اسی طرح انڈونیشیا کے شہر سورابایا میں ایک احتجاجی ریلی نکالی گئی، جس میں اس دن کی مذمت کرتے ہوئے کہا گیا کہ شادی کے بعد جنسی تعلق قائم کرنا ہی بہترین طریقہ ہے۔ اس احتجاج میں زیادہ تر طالب علم شامل تھے اور وہ ’ویلنٹائن سے انکار کریں‘ جیسے نعرے لگا رہے تھے۔ انڈونیشیا کے مختلف شہروں میں بھی ویلینٹائن ڈے منانے پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔
ملائیشیا میں نیشنل مسلم یوتھ ایسوسی ایشن نے یہ پیغام جاری کیا ہے کہ آج کے دن خواتین خوشبو کا کم استعمال کرتے ہوئے اپنے گھروں سے باہر نکلیں۔
اسی طرح بھارت میں ہندو تنظیم بجرنگ دل نے اس دن کی شدید مخالفت کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ اگر کسی پارک میں کوئی لڑکا اور لڑکی ایک ساتھ نظر آئے تو دونوں کو پکڑ کر ان کی شادی کروا دی جائے گی۔
دوسری جانب ایشیائی ملک تھائی لینڈ میں ’جادوئی وٹامنز‘ نامی گولیاں تقسیم کی گئی ہیں۔ ان گولیوں پر مشتمل چھ سو پیکٹ ان جوڑوں کو فراہم کیے گئے، جو اپنی شادیاں رجسٹر کروا رہے تھے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ اس طرح ملک میں بچوں کی شرح پیدائش میں اضافہ کیا جا سکتا ہے۔