ایشیا میں قمار بازی کی صنعت ترقی پاتی ہوئی
21 مارچ 2011شاید اسی لیے اب ایشیائی ممالک میں بھی قمار خانوں کے قیام کو اچھا شگون سمجھا جا رہا ہے۔ اقتصادی ماہرین کے بقول ایشیائی ممالک میں معیشی ترقی کی وجہ سے قمار بازی کی صنعت کو بھی فروغ مل رہا ہے۔ پرتگال کی سابقہ نو آبادی مکاؤ نے اس صنعت میں ریونیو کے حوالے سے لاس ویگاس کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ اس علاقے کو کیسینو انڈسٹری کے باعث کروڑوں ڈالر کی آمدنی ہو رہی ہے۔ اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے اب وہاں مزید قمار خانے بھی کھولے جا رہے ہیں۔
کئی ایشیائی ممالک سے تعلق رکھنے والے ایسے افراد جو جوئے کے شوقین یا عادی ہیں، وہ مکاؤ میں اپنے شوق کی تسکین کرتے ہیں۔ اسی طرح اب ویت نام، بھارت، نیپال اور دیگر ممالک میں بھی جوئے بازی کی صنعت کو فروغ مل رہا ہے۔ ہانگ کانگ میں CLSA سے وابستہ گیمبلنگ کے تجزیہ نگار ایرن فشر کے مطابق کئی ایشیائی ملکوں میں جوئے بازی کی روایات کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہاں اس صنعت کو مزید فروغ حاصل ہو گا۔
گزشتہ برس مکاؤ میں قمار بازی کی صنعت سے ہونے والی آمدنی کی مجموعی مالیت 23.52 بلین امریکی ڈالر رہی تھی، جس میں 2009ء کے مقابلے میں 58 فیصد کا اضافہ دیکھا گیا تھا۔ اسی طرح سنگاپور میں جہاں 2010ء میں دو کیسینو کھولے گئے تھے، وہاں رواں برس کے دوران اب تک 6.5 بلین ڈالر کی کمائی دیکھی گئی ہے۔
قمار بازی کی صنعت کے امریکی تجزیہ نگار جوناتھن گلاویز کہتے ہیں کہ موجودہ صورتحال دیکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ آئندہ برس تک قانونی جوئے بازی کی صنعت کے حوالے سے ایشیا امریکہ کو پیچھے چھوڑ دے گا۔ گزشتہ برس سنگار پور میں سیاحوں کی تعداد قریب 11.6 ملین تک دیکھی گئی تھی، جس کے نتیجے میں وہاں کی معیشت میں 15 فیصد شرح ترقی نوٹ کی گئی۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ وہاں سیاحت کے لیے جانے والوں کی نظروں میں قمار بازی ہمیشہ ہی ایک بہت دلکش امکان ہوتا ہے۔
ابھی تک ایشیا کے کئی دیگر ممالک میں جوئے کو قانونی حیثیت نہیں دی گئی۔ اس لیے کئی ایشیائی ریاستوں سے لوگ جوئے کے ذریعے قسمت آزمانے کے لیے دیگر ممالک کا رخ کرتےہیں۔ تاہم اب یہ بحث بھی شروع ہو گئی ہے کہ قمار خانوں کو قانونی حیثیت دی جائے تاکہ لوگ اپنے ملک میں ہی پیسہ لگائیں اور ان کی اس مصروفیت سے ان کے اپنے ملکوں کو ہی فائدہ پہنچے۔
بھارت کے بعد اب جاپان میں بھی یہ بحث جاری ہے کہ وہاں باقاعدہ قانونی اجازت کے بعد کیسینو کھولے جائیں اور اس صنعت کو بھی وہاں کی قومی معیشتوں کا حصہ بننے کا موقع دیا جائے۔
رپورٹ: عاطف بلوچ
ادارت: مقبول ملک