1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایشیا میں صاف پانی صرف امیر طبقے کے لیے

13 مارچ 2013

ایشیا میں رہنے والے 91 فیصد افراد کی صاف پانی تک رسائی میں بہتری آئی ہے۔ دنیا کے گنجان آباد ترین علاقے میں پچھلی دو دہائیوں کے دوران یہ ایک اہم ترین پیش رفت ہے۔

https://p.dw.com/p/17w06
تصویر: picture-alliance/dpa

لیکن اس کے امیر ممالک اور لوگوں کی صاف پانی تک نسبتاﹰ زیادہ رسائی ہے اور یہ حکومتیں قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیےزیادہ بہتر تیار بھی نظر آتی ہیں۔

ایشیائی ترقیاتی بنک نے بدھ کے روز شائع ہونے والی اپنی ایک تازہ رپورٹ میں کہا ہے کہ ایشیائی ممالک کو موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے نمٹنے کے لیے اپنے پانی کے ذرائع کو بہتر طور پر استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔ رپورٹ کے مطابق 1980ء سے2006ء تک ایشیا میں پانی سے متعلقہ آفات سے ہلاک اور متاثر ہونے والے افراد کی تعداد دوسرے علاقوں کی نسبت زیادہ رہی ہے۔ آسٹریلیا، سنگاپور، نیوزی لینڈ اور جاپان جیسے ترقی یافتہ ممالک سیلاب، خشک سالی، سمندری طوفان اور لینڈ سلائیڈنگ سے نمٹنے کے لیے بہتر طور پر تیار ہیں جبکہ نیپال، لاؤس، کمبوڈیا، تاجکستان، وانواٹو اور بنگلہ دیش میں صورت حال اس کے برعکس ہے۔

منیلا کے ایک ترقیاتی ادارے کے مطابق ایشیا بحرالکاہل کا کوئی ملک بھی پانی کی بہتر منیجمنٹ کے حوالے سے ماڈل کے طور پر پیش نہیں کیا جا سکتا۔ 38 ترقی پذیر ملکوں میں پانی کی سکیورٹی ایک مسئلہ ہے اور ابھی تک ان ممالک میں اس صورت حال سے نمٹنے کے لیے کوئی اقدامات نہیں کیے گئے۔ صرف 11 ترقی پذیر ممالک میں پانی کے ذرائع کے بہتر استعمال کے لیے بنیادی ڈھانچے کا قیام عمل میں لایا گیا ہے۔

ایشیائی ترقیاتی بنک کے نائب صدر بِندھو لوہانی نے کہا ہے کہ ایشیا بحرالکاہل کا علاقہ ایک اقتصادی طاقت کے طور پر ابھر کر سامنے آیا ہے لیکن اس علاقے کا کوئی ملک بھی پانی کے وسائل کے لحاظ سے محفوظ نہیں ہے۔ ۔

Bildgalerie Hilfsaktion in Südasien Wasser für Banda Aceh
انڈونیشیا میں بچی صاف پانی کی بوتل لیتے ہوئےتصویر: AP

ایشیا کے 80 فیصد کے قریب دریاؤں کی صورت حال بہت خراب ہے۔شہری آبادی میں اضافے کے ساتھ ہی ماحولیاتی آلودگی میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ خوراک اور توانائی کی بڑھتی ہوئی ضروریات کی وجہ سے پانی کے ذرائع پر زیادہ دباؤ ہے۔ ایشیا پیسفک واٹر فورم کی گورننگ کونسل کے روی نارائن نے کہا ہے کہ جب تک ان بڑھتی ہوئی ضروریات میں توازن قائم نہیں کیا جاتا پانی کی سکیورٹی کا مسئلہ برقرار رہے گا جس سےاربوں لوگوں کا معیار زندگی اور علاقائی ممالک کی ترقی کی رفتار متاثر ہوسکتی ہے۔

اچھی خبر یہ ہے کہ 1990 سے 2010 کے دوران ایشیا میں صاف پانی تک رسائی 74 فیصد سے لوگوں سے بڑھ کر 91 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔ یہ پیش رفت بحرالکاہل کے متصل ممالک کے سوا تمام ایشیائی ممالک میں دیکھی گئی ہے۔ ایشیا بحرالکاہل کے ممالک میں یہ شرح 54 فیصد کی سطح پر قائم ہے.

ایشیائی بنک کی رپورٹ کے مطابق ایشیا کے بہت سے شہروں میں پانی کو صاف کرنے کے لیے گھروں میں بنیادی انفراسٹرکچر موجود ہے۔ لیکن نلکے سے حاصل کیے جانے والے پانی کے حوالے سے صورت حال گھمبیر ہے۔ تقریباﹰ 900 ملین افراد کو پائپ سسٹم کے ذریعے پانی پہنچایا جاتا ہے لیکن علاقے کے 65 فیصد عوام ایک محفوظ پانی کے سپلائی سسٹم سے محروم ہیں۔ چین اور شمالی کوریا کے بعض شہروں میں پانی کی سپلائی 24 گھنٹے کے لیے کھلی ہوتی ہے لیکن بہت سے دوسرے شہروں میں سپلائی کا پانی کچھ مخصوص اوقات میں کھولا جاتا ہے۔ جکارتہ کے اکثر علاقوں میں 18 گھنٹے کے لیے پانی کھولا جاتا ہے جبکہ بھارت کے شہر چنئی میں صورت حال یہ ہے کہ پانی صرف چار گھنٹے کے لیے دستیاب ہوتا ہے۔

پھر سوال پیدا ہوتا ہے صحت کا۔ اسہال کے 88 فیصد کیسز کا براہ راست تعلق صاف پانی کی کمی اور صحت و ستھرائی کے نظام میں خرابی سے جوڑا جاتا ہے۔ اگرچہ گزشتہ کچھ دہائیوں سے حفظان صحت کے انتظامات میں بہتری لائی گئی ہے لیکن اب بھی ایشیا اور بحرالکاہل کے ممالک کی ایک بڑی آبادی اس سے محروم ہے۔ 792 ملین افراد کو اب بھی بیت الخلا کی سہولت میسر نہیں ہے اور انہیں رفع حاجت کے لیے کھلی جگہوں پر جانا پڑتا ہے۔

ایشیائی ترقیاتی بنک کے مطابق امیر اور غریب کے درمیان فرق کا عنصر بھی صاف پانی تک رسائی اور اس کی بہتر منیجمنٹ میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ امیر طبقے کو غریب افراد کی نسبت صاف پانی تک رسائی اور صفائی کے بہتر انتظامات مہیا ہیں۔ نیپال، کمبوڈیا، بھارت اور پاکستان میں امیر اور غریب کے درمیان فرق بہت زیادہ ہے۔ بنگلہ دیش میں ایک اندازے کے مطابق دیہات می‍ں آباد 96 فیصد امیر طبقے کو پانی اور صفائی کی بہتر سہولیات مییسر ہیں۔

zh/aba(AP