ایران میں بے گھر افراد
ایران میں ہزاروں افراد بے گھری پر مجبور ہیں جب کہ ناقدین اس کی ذمہ داری صدر حسن روحانی پر عائد کرتے ہیں۔
حد سے باہر
دسمبر کی ایک سرد رات میں، قریب ساڑھے سات سو بے گھر افراد تہران میں خواران نامی اس مقام پر موجود ہیں۔ اس سے قبل اس جگہ کبھی ایک رات میں چار سو سے زائد افراد جمع نہیں ہوئے۔
گرم ٹھکانہ
خواران ہال چھ سو افراد کو چھت مہیا کرنے کے لیے بنایا گیا ہے۔ سرد راتوں میں مگر یہاں گیارہ سو افراد تک پہنچ جاتے ہیں۔ اس مقام پر مزدوروں کو بھی رکھا جاتا ہے، جہاں انہیں کھانا اور سونے کی جگہ دی جاتی ہے۔ ایران میں بے گھری کی وجہ بڑھتی ہوئی بے روزگاری اور منشیات کے عادی افراد کی تعداد میں اضافہ ہے۔
گتے کے گھر
بے گھر افراد متعدد مقامات پر ہاتھ سے بنائے گئے یہ ٹھکانے بھی بنا لیتے ہیں۔ گتوں سے بنے یہ گھر ’کارٹن خواب‘ کہلاتے ہیں۔ دسمبر میں ایک 28 سالہ شخص ایک زیر تعمیر عمارت میں مردہ حالت میں ملا تھا۔ گتے سے بتائے گئے گھروں میں ہلاک متعدد افراد ہلاک ہو جاتے ہیں۔
بچوں کے گھر
گزشتہ برس اگست میں یہ تصویر سوشل میڈیا پر سامنے آئی۔ گتے کا بچوں کا یہ ٹھکانہ تصویر میں دکھا کر انسانی حقوق کے کارکنوں نے حکومت سے اقدامات کی اپیل کی تھی۔
تباہ کن حالت
حکومت کی جانب سے بے گھروں کے لیے ایک منصوبے کے آغاز کے بعد اخبارات میں شائع ہوا کہ ان بے گھر افراد کو خالی قبروں میں رکھا جا رہا ہے اور بہت سے افراد نصیرآباد شہر میں کھلی قبروں میں رہنے پر مجبور ہیں۔
ذمہ داری روحانی پر
حکام نے قبرستان سے ان بے گھر افراد کو زبردستی ہٹا دیا۔ قدامت پسند اس معاملے کو صدر روحانی پر تنقید کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ ان افراد کا کہنا ہے کہ روحانی انتخابی مہم میں کیے گئے وعدے پورے کرنے میں ناکام رہے ہیں۔
زچگی کے مسائل
گزشتہ سردیوں میں بے گھر خواتین میں سے تین فیصد حاملہ تھیں۔ منشیات کی عادی زیادہ تر خواتین اس خوف سے طبی مراکز نہیں جاتی، کیوں کہ انہیں قانونی چارہ جوئی کا خطرہ ہوتا ہے۔ رپورٹوں کے مطابق چند خواتین مختلف گروہوں کو اپنے بچے فروخت تک کر دیتی ہیں۔
بے گھر افراد کے لیے کام
امدادی ادارے ایران میں کئی دہائیوں سے ان بے گھر افراد کے لیے کام کر رہے ہیں۔ یہ ادارے ہزاروں افراد کو خوراک اور چھت فراہم کرنے کے لیے اقدامات کرتے ہیں۔