اگر یورپ عمل کرے تو جوہری پیشرفت واپس کر سکتے ہیں، ظریف
15 فروری 2020جرمنی اور سلامتی کونسل کے پانچ مستقل ارکان کے ساتھ ایران کا جوہری معاہدہ 2015ء میں طے پایا تھا جس کے تحت ایران کو جوہری ہتھیاروں کی تیاری سے باز رکھنا تھا جبکہ اس کے جواب میں ایران کے خلاف بین الاقوامی پابندیاں ختم کی جانا تھیں۔ امریکا کی طرف سے 2018ء میں یکطرفہ طور پر اس معاہدے کے الگ ہونے اور تہران حکومت کے خلاف پابندیوں کی بحالی کے بعد سے یہ معاہدہ غیر یقینی صورتحال سے دو چار ہے۔ اس معاہدے میں شریک تین یورپی ممالک جرمنی، فرانس اور برطانیہ اس معاہدے کو بچانے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں۔ امریکی پابندیوں کے نفاذ کے بعد سے تہران حکومت بھی بتدریج خود پر لاگو ذمہ داریوں سے الگ ہونے کا اعلان کر چکی ہے اور اس نے یورینیئم کی افزودگی کی شرح میں بھی اضافہ کر دیا ہے۔
جرمن شہر میونخ میں جاری سکیورٹی کانفرنس کے موقع پر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے ایرانی وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے کہا، ''ہم یہ کہہ چکے ہیں کہ ہم اس عمل کو سست کرنے یا پھر ان اقدامات کو واپس لینے کے لیے تیار ہیں مگر اس کا دار ومدار اس بات پر ہے کہ یورپ کیا کرتا ہے۔‘‘
ظریف کا مزید کہنا تھا، ''ہم فیصلہ کریں گے کہ یورپ نے جو کچھ کیا ہے وہ بعض اقدامات کو سست کرنے یا واپس لینے کے لیے کافی ہے یا نہیں... ہم نے اب تک کیے گئے بعض اقدامات کو واپس لینے کے امکان کو بھی رد نہیں کیا۔‘‘ ایرانی وزیر خارجہ کے مطابق، ''ہم خیرات کی بات نہیں کر رہے۔ ہم ایرانیوں کے حقوق کی بات کر رہے ہیں اور ایرانی عوام کے معاشی مفادات حاصل کرنے کے حق کی بات کر رہے ہیں۔‘‘
امریکی پابندیاں 'ناقابل تلافی نقصان‘ کا سبب
امریکا کی تازہ پابندیوں نے ایران کو بین الاقوامی اقتصادی نظام سے الگ تھلگ کر کے رکھ دیا ہے اور تہران سے تیل کی خریداری پر پابندی کے سبب یہ ملک شدید معاشی مشکلات کا شکار ہے۔
جواد ظریف کے مطابق، ''ہمیں امریکی پابندیوں کے سبب ناقابل تلافی نقصان ہوا ہے، لیکن پھر بھی ہم وہ اقدامات واپس لے سکتے ہیں جو ہم نے کیے ہیں، بشرطیکہ یورپ بھی ایسے اقدام کرے جو معنی خیز ہوں۔‘‘
ا ب ا / ع ح (اے ایف پی، اے پی)