اٹلی: امدادی جہاز کا تعطل ختم، مہاجرین ساحل پر اتر گئے
9 نومبر 2022اطالوی ساحل پر پھنسے ہوئے سیکڑوں مہاجرین کو آٹھ اکتوبر منگل کے روز یورپ میں داخل ہونے کی اجازت دے دی گئی۔ تقریباً 500 تارکین وطن بالآخر سمندر سے زمین پر آنے میں اس وقت کامیاب ہوگئے، جب متعدد جہازوں میں سوار ان افراد کو سسلی کے ساحل پر اترنے کی اجازت مل گئی۔
سوئٹزرلینڈ تارکین وطن کو جرمنی اور فرانس بھیج رہا ہے، رپورٹ
اس معاملے پر پیرس اور روم کے درمیان سفارتی تناؤ پیدا ہونے کے بعد ایک اور بحری جہاز کو فرانس کی جانب سفر کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔
ترکی نے سینکڑوں شامی مہاجرین کو ملک بدر کیا، رپورٹ
ریسکیو جہازوں میں پھنسے ہوئے سینکڑوں افراد کا تعطل ختم
گزشتہ ماہ کے اواخر میں یہ تارکین وطن شمالی افریقہ سے اٹلی کی طرف جانے والے خطرناک بحری راستے کو عبور کرنے کی کوشش کر رہے تھے، تبھی انہیں خیراتی امدادی جہازوں نے ایک کراسنگ میں بچا لیا تھا۔
تاہم انتہائی دائیں بازو کی اطالوی حکومت نے کشتیوں میں سوار لوگوں کو اپنے ساحل پر اترنے سے روک دیا تھا اور کئی دنوں تک انہیں انتظار میں رکھا۔ اس دوران اس نے صرف طبی پریشانی میں مبتلا افراد کو ہی زمین پر آنے کی اجازت دی تھی۔
بالآخر جرمنی کے ریسکیو چیئریٹی مشن لائف لائن کے جہاز 'رائز ابو' پر سوار 89 تارکین وطن کو منگل کے روز زمین پر آنے کی اجازت دی گئی۔ پھر اس کے بعد ایک جرمن ریسکیو جہاز 'ایس او ایس ہیومینیٹی' میں موجود 35 دیگر تارکین وطن کو بھی اترنے کی اجازت دی گئی۔
اس جہاز پر سوار بیشتر تارکین وطن نے اس وقت بھوک ہڑتال شروع کرنے کا اعلان کر دیا تھا، جب اطالوی حکومت نے ابتدائی طور پر انہیں
زمین پر اترنے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا تھا۔ ایس او ایس ہیومینیٹی نے اطالوی حکام کے خلاف قانونی کارروائی کا منصوبہ بھی شروع کر دیا تھا۔
اس کے چند گھنٹے بعد ہی ایک اور جہاز میں 200 سے بھی زیادہ سوار بقیہ تارکین وطن کو بھی اٹلی کے ساحل پر اترنے کی اجازت دی گئی۔
عالمی تنظیم ڈاکٹرز ودآؤٹ بارڈرز (ایم ایس ایف) کے ایک رکن ریکارڈو گیٹی نے بتایا کہ اطالوی حکام نے جہاز میں موجود لوگوں کا معائنہ کیا تھا اور پھر انہیں انسانی بنیادوں پر ساحل پر آنے کی اجازت دینے کا فیصلہ کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ڈاکٹروں، ماہر نفسیات اور مترجمین نے ساحل پر آنے والے لوگوں کو مدد فراہم کی۔ جہاز میں پھنس جانے والے ایسے درجنوں افراد کے لیے کیٹانیا کی ایک عدالت میں فوری پناہ کی درخواست بھی دائر کی گئی تھی۔
امدادی گروپوں کا کہنا ہے کہ جہاز میں سوار افراد شدید نفسیاتی دباؤ کا شکار تھے۔ شام سے تعلق رکھنے والے دو تارکین وطن نے پانی میں چھلانگ لگانے کی کوشش بھی کی، تاہم انہیں پانی سے باہر نکال لیا گیا۔ ایم ایس ایف نے بتایا کہ پھر ان لوگوں نے کھانے اور پینے سے انکار کر دیا۔
فرانس اور اٹلی کے درمیان کشیدگی
اس تعطل نے روم اور پیرس کے درمیان اس وقت ایک سفارتی تنازعے کو بھی جنم دیا، جب ان میں سے ایک کشتی فرانس میں لنگرانداز ہونے کے لیے آگے بڑھی۔ یہ جہاز گزشتہ 27 اکتوبر سے اٹلی کے ساحل پر کھڑے تھے اور کئی بار انہیں اترنے کی اجازت دینے کی اپیلیں کی گئی تاہم کامیابی نہیں ملی۔ پھر اس میں سے ایک جہاز کو بالآخر کورسیکا کے لیے روانہ کر دیا گیا۔
اٹلی کی نئی انتہائی دائیں بازو کی وزیر اعظم جارجیا میلونی نے فرانسیسی حکام کی جانب سے کسی بھی تصدیق سے قبل ہی جہاز کے لیے اپنی بندرگاہ کھولنے پر فرانس کا شکریہ بھی ادا کر دیا۔
اطالوی خبر رساں ایجنسی اے جی آئی کی اطلاع کے مطابق میلونی اور فرانسیسی صدر ایمانوئل ماکروں نے پیر کی رات کو مصر میں اقوام متحدہ کے موسمیاتی سربراہی اجلاس کے دوران اس معاہدے پر اتفاق کیا تھا۔
میلونی نے اپنے ایک بیان میں کہا، ''ہم مہاجرت کی ہنگامی صورتحال کی ذمہ داری بانٹنے کے لیے فرانس کے فیصلے کے لیے اپنی دلی تعریف کا اظہار کرتے ہیں، جو اب تک اٹلی اور بحیرہ روم کی چند دیگر ریاستوں کے کندھوں پر ہے۔''
تاہم بعد میں جو جہاز فرانس روانہ کیا گیا تھا اس سے وابستہ ادارے نے بتایا کہ فرانسیسی حکام نے انہیں جہاز لنگر انداز ہونے کی کوئی تصدیق نہیں کی تھی۔ بعد میں فرانسیسی حکومت کے ایک ذرائع نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ اس معاملے میں اٹلی کا رویہ ''ناقابل قبول اور سمندر سے متعلق قوانین اور یورپی یکجہتی کے جذبے کے بالکل منافی ہے۔''
ادھر اطالوی وزیر داخلہ میٹیو پیانٹیدوسی نے پیر کے روز کہا کہ روم ''انسانیت کا کام کر رہا ہے، تاہم اپنے اصولوں پر مضبوطی قائم رہتے ہوئے وہ ایسا کر رہا ہے۔''
ص ز/ ج ا (ڈی پی اے، اے ایف پی)