اٹلی: بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی، پادری سمیت گیارہ گرفتار
11 فروری 2016پولیس کے مطابق گیارہ افراد کو ان کے گھروں پر نظر بند کر دیا گیا ہے جبکہ ایک ملزم گرفتار نہیں ہو سکا ہے۔ خیال کیا گیا ہے کہ بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کا بارہواں ملزم بیرون ملک ہے۔ میڈیا اطلاعات کے مطابق ملٹری پولیس نے ان ملزمان کو اطالوی صوبوں میلان، پارما، برگامو اور ان کے قریبی شہروں میں چھاپے مارتے ہوئے گرفتار کیا۔
پولیس کی اس کارروائی کے بعد اطالوی صوبے برگامو کے کیتھولک چرچ نے بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے، ’’ یہ انتہائی سنگین اور مایوس کن الزامات بشپ اور ہماری کمیونٹی کے لیے انتہائی تکلیف دہ ہیں۔‘‘ کیتھولک چرچ نے متاثرین کے لیے دعا کرتے ہوئے ’’سچ اور انصاف‘‘ منظر عام پر لانے کا کہا ہے۔
پولیس کی طرف سے ان تحقیقات کا آغاز اس وقت ہوا، جب ایک سولہ سالہ لڑکے کی ماں نے اپنے بیٹے کے موبائل پر ایک مشتبہ پیغام دیکھا اور وہ یہ پیغام لے کر پولیس کے پاس چلی گئی۔ پولیس کی تحقیقات سے پتہ چلا ہے کہ عمر رسیدہ افراد کی طرف سے اسی طرح کے تین دیگر لڑکوں کو جنسی عمل کرنے کے عوض پیسوں کی ادائیگی کی جاتی تھی۔
پولیس کے مطابق عمر رسیدہ افراد اور لڑکوں کے مابین زیادہ تر ملاقاتیں شاپنگ سینٹرز کے کار پارکنگ ایریاز میں ہوتی تھیں اور ان کا ٹائم وغیرہ سوشل میڈیا پر طے کیا جاتا تھا۔ بتایا گیا ہے کہ نوعمر لڑکوں کو جنسی عمل کے عوض بیس سے ایک سو یورو کے درمیان رقم فراہم کی جاتی تھی جبکہ ان کو مختلف تحائف بھی دیے جاتے تھے، جن میں تفریحی پارکوں کے ٹکٹ اور فاسٹ فوڈ کے کھانے شامل ہوتے تھے۔
یاد رہے کہ سن دو ہزار چودہ میں اقوام متحدہ کی جانب سے جاری ہونے والی ایک رپورٹ میں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کا ارتکاب کرنے والے پادریوں کے خلاف مناسب کارروائی نہ کرنے پر کیتھولک چرچ کے مرکز ویٹیکن کے کردار کی مذمت کی گئی تھی۔
دوسری جانب حال ہی میں انگلینڈ کے کمشنر برائے اطفال نے بھی اپنی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا تھا کہ 2012ء اور 2014ء کے درمیانی عرصے میں ان کے ملک میں تقریباﹰ ساڑھے چار لاکھ بچے جنسی زیادتی کا نشانہ بنے لیکن صرف ہر آٹھویں بچے کی نشاندہی ہو پائی۔ ان ادارے کا بھی کہنا تھا کہ جنسی زیادتی کے واقعات میں مشہور شخصیات، سیاستدان اور گھرجا گھروں سے منسلک افراد بھی شامل ہیں۔