1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ايران اور روس شمالی کوريا سے تعلقات بڑھانے کے خواہاں کيوں؟

عاصم سلیم Lewis Sanders IV
29 اپریل 2019

شمالی کوريا کے حوالے سے امريکی پاليسی کوئی واضح سمت اختيار نہيں کر رہی ہے۔ ايسے ميں روس اور ايران پيونگ يانگ کے ساتھ باہمی روابط بہتر بنا کر اسٹريٹيجک لحاظ سے ميدان مارنے کی کوششوں ميں ہيں۔

https://p.dw.com/p/3HcIw
Russland Wladiwostok Treffen Putin und Kim
تصویر: picture-alliance/dpa/V. Sharifulin

روسی صدر ولاديمير پوٹن نے شمالی کوريا کے سپریم لیڈر چیرمین کم جونگ ان کا مشرقی شہر ولادی ووستوک ميں پچھلے ہفتے ملاقات کی تھی۔ یہ میٹنگ امريکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی اس سال فروری ميں ويت نام ميں شمالی کوریائی لیڈر کے ساتھ ہونے والی سمٹ سے بظاہر بالکل ہی مختلف دکھائی دی۔ پوٹن سے ملاقات کے بعد بات چيت کرتے ہوئے کم نے ٹرمپ کی حکمت عملی کو يکطرفہ اور عدم اعتماد پر مبنی قرار ديا جبکہ ماسکو کے ساتھ روابط کو روايتی و اسٹريٹيجک اہميت کا حامل قرار ديا۔

ايک ايسے وقت جب شمالی کوريا کے حوالے سے امريکی خارجہ پاليسی ڈگمگا رہی ہے، روس وہ واحد ملک نہيں جو پيونگ يانگ کے ساتھ قربت کی کوششوں ميں مصروف ہے۔ ايرانی وزير خارجہ محمد جواد ظريف نے اتوار اٹھائيس اپريل کو اعلان کيا کہ وہ عنقريب شمالی کوريا کا دورہ کريں گے۔ ايران اور شمالی کوريا کے تعلقات سن 1980 کی دہائی سے چلے آ رہے ہيں۔ اسلامی انقلاب کے بعد يہ تعلقات بہتر ہوتے گئے اور پھر  اسی دہائی کے دوران ايران، عراق جنگ ميں تہران حکومت کے ليے شمالی کوريا ہتھياروں کی فراہمی کا ذريعہ بنا۔

تاريخی طور پر ان ممالک کے باہمی روابط ضروريات کی بنياد پر ہی تھے۔ ايران کا کافی حد تک دار و مدار خام تيل کی برآمد پر ہے۔ اور اب جب کہ امريکا نے حال ہی ميں اعلان کيا ہے کہ ايرانی تيل خريدنے والے ملکوں کو حاصل امريکی پابنديوں سے استثنی دو مئی کو ختم ہو جائے گا، اندازہ لگایا گیا ہے کہ ايران کے ليے شمالی کوريا کی طرف بڑھنے کا یہ بہتر موقع ہو سکتا ہے۔

دوسری جانب شمالی کوريا سے قربت بڑھانے کے روسی مقاصد ذرا مختلف ہيں۔ ماسکو حکومت شمال مشرقی ايشيا ميں اپنا کردار بڑھانا چاہتی ہے۔ سرد جنگ کے دور ميں سابقہ سوویت یونین کمیونسٹ ریاست شمالی کوریاکا اہم حمايتی تھا۔ پھر سن 1950 سے سن 1953 تک جاری رہنے والی جزيرہ نما کوريا کی جنگ ميں بھی چين اور روس ہی نے پيونگ يانگ کی حمايت جاری رکھی تھی۔ جوہری ہتھيار کی تياری ميں بھی اندازوں کے مطابق روس نے شمالی کوريائی سائنسدانوں کی معاونت کی تھی۔

روس کی جانب سے شمالی کوریا سے تعلقات بڑھانے کی تازہ کوشش خطے ميں سياسی و اقتصادی ساکھ کو مزید مستحکم بنانا خیال کیا گیا ہے۔