1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کشمیر: او آئی سی کے بیان پر بھارت کا سخت رد عمل

صلاح الدین زین ڈی ڈبلیو نیوز، نئی دہلی
30 نومبر 2020

بھارت نے کشمیر کی صورت حال پر اسلامی ممالک کی تعاون تنظیم (او آئی سی) کے بیان پر سخت نکتہ چینی کی ہے۔ او آئی سی نے متنازعہ خطہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور بعض بھارتی اقدامات پر تنقید کی تھی۔

https://p.dw.com/p/3m0E2
Trump Mideast Plan Muslim Nations
تصویر: picture-alliance/AP Photo

بھارت نے اپنے زیر انتظام متنازعہ خطے کشمیر سے متعلق اسلامی ممالک کی تعاون تنظیم او آئی سی کی نکتہ چینیوں کو مسترد کر تے ہوئے کہا کہ تنظیم کا بیان حقیت کے برعکس ہے۔ بھارت نے پاکستان کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اس تنظیم کو  ایک ملک بھارت کے خلاف مہم کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔

اس ماہ 27 سے 29 نومبر کے دوران نائجر کے شہر نیامے میں او آئی سی کے 57 ممالک کے وزراء خارجہ کے ہونے والے ایک اجلاس میں کشمیر سے متعلق قرارداد منظور کی گئی، جس میں وہاں ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی مذمت کرتے ہوئے کشمیری عوام کے حق خود ارادیت کی حمایت اعادہ کیا گيا۔

تنظیم کے سکریٹری جنرل ڈاکٹر یوسف العثیمن نے وزراء خارجہ پر مبنی تنظیم کے 47 ویں اجلاس میں کشمیر سے متعلق اپنی ایک رپورٹ پیش کی جس میں کشمیر سے دفعہ 370 کے خاتمے کو بھارت کا یکطرفہ اقدام بتاتے ہوئے مطالبہ کیا گيا کہ بھارت وہاں کی آبادی کے ڈھانچے کو تبدیل کرنے سے باز رہے۔ 

اس رپورٹ میں کہا گيا،''بھارتی حکومت نے پانچ اگست سن 2019  کو اس علاقے کی آبادیاتی اور جغرافیائی ساخت کو تبدیل کرنے کے لیے جو یکطرفہ اقدامات کیے اور انسانی حقوق کی پامالیوں کے ساتھ ساتھ خطے میں جو ناکہ بندی اور بندشیں عائد کیں، اس سے اس تنازعے کے حل کے لیے عالمی برادری کی نئی کوششیں مزید بیدار ہوئی ہیں۔‘‘

کارگل وار کی کہانی، دراس کے مقامی باشندوں کی زبانی

اس بیان میں ایک بار پھر کہا گيا ہے کہ تنظیم اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کشمیر مسئلے کا پر امن حل چاہتی ہے اور بھارت کو چاہیے کہ وہ کشمیر سے متعلق اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کی پابندی کرے۔ 

نئی دہلی میں وزارت خارجہ کے ترجمان انوراگ سروی واستوا نے او آئی سی کے ان بیانات کو مسترد کرتے ہوئے کہا،'' کشمیر سے متعلق او آئی سی کی قرارداد حقائق پر مبنی نہیں اور ہم یہ کہہ چکے ہیں کشمیر، جو کہ بھارت کا اٹوٹ حصہ ہے، سمیت بھارت کے کسی بھی اندرونی معاملے سے اس کا کچھ بھی لینا دینا نہیں ہے۔ ایسے غیر ضروری بیان کو ہم پوری طرح سے مسترد کرتے ہیں۔‘‘ 

بھارتی وزرات خارجہ کے ترجمان نے تنظیم کے لیے سخت الفاظ کا استعمال کرتے ہوئے کہا کہ او آئی سی کا اس مسئلے سے کچھ بھی لینا دینا نہیں ہے اور مستقبل میں تنظیم کو اس طرح کے بیانات سے باز  رہنا چاہیے ،''یہ افسوس کی بات ہے کہ اوآئی سی اپنے آپ کو، بھارت کے خلاف پروپیگنڈہ کرنے والے، ایک ایسے ملک کو استعمال کرنے کی اجازت دیتا ہے جس کا مذہبی رواداری کا ریکارڈ خراب ہے اور جہاں انتہا پسندی اور اقلیتوں کے خلاف ظلم و جبر عام بات ہے۔‘‘

’یہ علاقہ کبھی پاکستان کا حصہ تھا‘

اس سے قبل اس برس جون کے اواخر میں بھی او آئی سی نے بھارت سے کشمیر میں عوام کے خلاف جاری سکیورٹی کریک ڈاؤن اور آپریشن کو بند کرنے کی اپیل کی تھی۔ اس وقت بھی گروپ نے کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالیوں کے حوالے سے بھارت پر نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا تھا کہ بھارت کشمیر میں آبادی کے ڈھانچے کو تبدیل کرنے سے باز رہے۔

اس بیان میں بھی مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کرنے کی بات کہی گئی تھی۔ تاہم بھارت نے اس پر بھی اعتراض کرتے ہوئے اسے مسترد کر دیا تھا۔ 

بھارتی حکومت نے گزشتہ برس اگست میں جب کشمیر کو حاصل خصوصی آئینی اختیارات ختم کیے تو اس کا ریاستی درجہ بھی ختم کرتے ہوئے خطہ کشمیر کو مرکز کے زیر انتظام دو علاقوں میں تقسیم کر دیا تھا۔ اس کے ساتھ ہی بھارت نے خطہ کشمیر کے تمام جمہوری اداروں کو تحلیل کرتے ہوئے بیشتر  کشمیری رہنماؤں کو گرفتار کر لیا تھا اور عوامی رد عمل سے بچنے کے لیے تمام مواصلاتی نظام منقع کر دیےگئے تھے۔

اس وقت سے کشمیر میں ہر جانب سکیورٹی کا سخت پہرا ہے اور اب بھی انٹرنیٹ سمیت بہت سی چیزوں پر جزوی بندشیں عائد ہیں۔ سینکڑوں کشمیری رہنما اب بھی بھارتی جیلوں میں قید ہیں۔ خود بھارت میں موجود بعض انسانی حقوق کی تنظیموں نے حکومت کے اس سخت رویے پر نکتہ چینی ہے۔

کشمیر: کیا ایل او سی پر بسے گاؤں کے حالات بدل جائیں گے؟

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں