1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اولمپکس کی وجہ سے اسانج کی در‌خواست پر ’فیصلہ مؤخر‘

29 جولائی 2012

وکی لیکس کے بانی جولیان اسانج کی والدہ کرسٹین اسانج ایکواڈور پہنچ گئی ہے۔ وہ کیٹو حکام کے ساتھ اپنے بیٹے کی پناہ کی درخواست پر بات چیت کریں گی، جس پر فیصلے کی راہ میں ’لندن اولمپکس رکاوٹ‘ بنے ہوئے ہیں۔

https://p.dw.com/p/15g4Z
تصویر: dapd

کرسٹین اسانج ہفتے کو ایکواڈور پہنچی۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق کیٹو حکومت کی ویب سائٹ El Ciudadano پر اس بات کی تصدیق کی گئی ہے۔

اس ویب سائٹ پر جاری کی گئی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے: ’’کرسٹین اسانج اپنے بیٹے کی زندگی بچانے کے لیے ایکواڈور کا دورہ کر رہی ہیں۔‘‘

ایکواڈور کی وزارتِ خارجہ کے مطابق وزیر خارجہ ریکارڈو پٹینو پیر کو کرسٹین اسانج سے ملاقات میں پناہ کے لیے ان کے بیٹے کی درخواست پر بات چیت کریں گے۔

پٹینو کا کہنا ہے کہ ایکواڈور اسانج کی درخواست کا جواب لندن اولمپکس کے بعد 12 اگست کو دے گا۔ ان کا کہنا تھا: ’’ہم ایسے فیصلے کریں گے، جن سے برطانیہ کے ساتھ ہمارے تعلقات متاثر نہ ہوں۔‘‘

ان کا کہنا تھا کہ کیٹو حکومت محتاط رہے گی تاکہ لندن اولمپکس پر منفی اثر نہ پڑے۔

جولیان اسانج اس وقت لندن میں قائم لاطینی امریکا کے اس ملک ایکواڈور کے سفارت خانے میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔ اس حوالے سے کرسٹین اسانج نے ویب سائٹ El Ciudadano سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ اپنے بیٹے کو پناہ دینے (سفارت خانے میں) پر ایکواڈور کی حکومت کی شکرگزار ہیں۔

Ecuadorianische Botschaft in London
لندن میں قائم ایکواڈور کا سفارت خانہتصویر: Reuters

ان کا کہنا تھا: ’’مجھے یقین ہے کہ صدر اور ان کے معاونین اس معاملے میں بہترین فیصلہ کریں گے۔‘‘

اکتالیس سالہ جولیان اسانج برطانیہ بدری سے بچنے کے لیے ایکواڈور میں پناہ چاہتے ہیں۔ انہیں سویڈن کے حوالے کیا جا سکتا ہے جہاں انہیں جنسی حملے کے الزامات کا سامنا ہے۔

وکی لیکس کے بانی کو خدشہ ہے کہ سویڈن سے انہیں امریکا کے حوالے کیا جا سکتا ہے جہاں ان پر امریکی خفیہ دستاویزات اپنی ویب سائٹ پر شائع کرنے پر جاسوسی کا مقدمہ چل سکتا ہے۔

ایکواڈر کے صدر رافائل کورئیا کی امریکا کے ساتھ اکثر محاذ آرائی رہی ہے اور انہوں نے 2010ء میں جولیان اسانج کو اپنے ہاں پناہ کی پیش کش کی تھی۔

انہوں نے رواں ماہ قبل ازیں کہا تھا کہ اسانج کو پناہ دینے سے متعلق کسی بھی فیصلے میں ان کی حکومت برطانیہ، سویڈن یا امریکا کے دباؤ میں نہیں آئے گی۔

جولیان اسانج کو 2010ء میں برطانیہ میں گرفتار کیا گیا تھا۔

ng/ah (AFP)