1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اوباما نے تو 'چھ مسلم ممالک پر بمباری' کی تھی، بھارتی وزیر

صلاح الدین زین ڈی ڈبلیو، نئی دہلی
26 جون 2023

بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے دورہ امریکہ کے دوران انسانی حقوق سے متعلق اٹھائے گئے سوالات سے پیدا تنازعہ اب بھی جاری ہے۔ ا ب بھارت کی ایک مرکزی وزیر نے اس حوالے سے سابق امریکی صدر باراک اوباما پر شدید تنقید کی ہے۔

https://p.dw.com/p/4T3Wi
USA US-Präsident Joe Biden empfängt Indiens Premierminister Narendra Modi zum Staatsbesuch im Weißen Haus in Washington
تصویر: Kevin Lamarque/REUTETS

بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت کے وزیر اور ان کی پارٹی کے کئی رہنما امریکہ کے سابق صدر باراک اوباما کی اس بات سے کافی ناراض ہیں کہ انہوں نے بھارتی مسلمانوں کی پریشان کن صورت حال کے بارے میں باتیں کیوں کی اور انسانی حقوق سے متعلق آواز کیوں اٹھائی۔ 

اوباما کا بھارت میں 'اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ' پر زور اور بائیڈن کی خاموشی

واضح رہے کہ امریکہ کے سابق صدر براک اوباما نے گزشتہ ہفتے وزیر اعظم مودی کے دورہ امریکہ کے دوران ایک نیوز چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ ان کی تمنا ہے کہ جب صدر جو بائیڈن مودی سے بات چیت کریں، تو وہ بھارت میں مسلم اقلیت کے حقوق کے تحفظ سے متعلق پائے جانے والے خدشات پر بھی زور دیں۔

مودی کا دورہ امریکہ اور انسانی حقوق کے حوالے سے تشویش

بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی وزیر خزانہ نرملا سیتا رمن نے بھارتی مسلمانوں کے ساتھ سلوک سے متعلق تنازعے پر مودی کا دفاع کیا اور سابق امریکی صدر باراک اوبا پر شدید تنقید کی ہے۔

وزیر اعظم مودی کے دورہ امریکہ سے کن اہم سودوں کی توقع ہے؟

انہوں نے کہا، ''میں اس وقت حیران رہ گئی، جب وزیر اعظم مودی امریکہ میں مہم چلا رہے تھے، مہم سے میرا مطلب بھارت کے بارے میں بات کرنا ہے، اس وقت امریکہ کے ایک سابق صدر بھارتی مسلمانوں کے بارے میں بات کر رہے تھے۔''

بھارتی مسلمانوں کے سامنے اب یونیفارم سول کوڈ کا مسئلہ

نرملا سیتا رمن نے کہا، میں یہ بات ضبط کے ساتھ کہہ رہی ہوں کیونکہ اس میں ایک اور ملک بھی شامل ہے۔ ہم امریکہ کے ساتھ دوستی چاہتے ہیں لیکن وہاں بھی بھارت میں مذہبی آزادی سے متعلق ہم پر تبصرے کیے جاتے ہیں۔ ایک سابق امریکی صدر، جن کے دور میں چھ مسلم اکثریتی ممالک پر 26,000 سے زیادہ بار بمباری کی گئی۔ تو لوگ ان کے ایسے الزامات پر اعتبار کیسے کریں گے؟''

ان کا مزید کہنا تھا، ''مجھے تو اس ملک کے ماحول کو خراب کرنے کی یہ ایک دانستہ کوشش لگتی ہے، کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ وزیر اعظم نریندر مودی کی ترقیاتی پالیسیوں کے خلاف جیت حاصل نہیں کی جا سکتی۔''

USA | Indiens Premierminister Modi in Washington
ایک حلقے کا کہنا ہے کہ چین کی وجہ سے بھارت سے قربت کے لیے بائیڈن انتظامیہ نے ان حلقوں کی تنقید کو بھی نظر انداز کر دیا، جو یہ کہتے ہیں کہ امریکہ نے مودی کی دائیں بازو کی حکومت کے ماتحت بھارت میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے حوالے سے اپنی آنکھیں بند کر لی ہیںتصویر: Evan Vucci/AP Photo/picture alliance

اوباما نے کیا کہا تھا؟

 گزشتہ ہفتے جب بھارتی وزیر اعظم مودی امریکہ کے سرکاری دورے پر تھے، تو اس وقت کئی حلقوں کی جانب سے یہ سوال اٹھائے گئے تھے کہ مودی کے دورہ حکومت میں بھارت کی اقلیتوں، خاص طور پر مسلمانوں کے لیے، ایک معاندانہ ماحول پیدا ہوا ہے۔

مودی کے لیے مصر کا سب سے بڑا اعزاز

اس پس منظر میں سی این این کے ساتھ ایک انٹرویو کے دوران سابق امریکی صدر  اوباما نے کہا تھا: ''اگر میں وزیر اعظم مودی، جنہیں میں اچھی طرح جانتا ہوں، کہ ساتھ بات چیت کرتا تو میری دلیل کا ایک حصہ یہ بھی ہوتا کہ اگر آپ بھارت میں نسلی اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ نہیں کرتے ہیں، اورقوی امکان اس بات کا ہے کہ ایک وقت آئے گا جب بھارت کے ٹکڑے ٹکڑے ہونے شروع ہو جائیں گے۔''

ایک حلقے کا کہنا ہے کہ چین کی وجہ سے بھارت سے قربت کے لیے بائیڈن انتظامیہ نے ان حلقوں کی تنقید کو بھی نظر انداز کر دیا، جو یہ کہتے ہیں کہ امریکہ نے مودی کی دائیں بازو کی حکومت کے ماتحت بھارت میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے حوالے سے اپنی آنکھیں بند کر لی ہیں۔

اس حوالے سے سوشل میڈیا پر بھی بحث جاری ہے۔ خاص طور لوگ نریندر مودی کے ایک اس انٹرویو کی کلپ شیئر کر رہے ہیں، جس میں مودی نے دعویٰ کیا تھا کہ امریکی صدر براک اوباما ''میرے گہرے دوست ہیں اور ان سے تو ہماری تو تڑاک سے بھی بات ہوتی رہتی ہے۔''

 لوگ پوچھ رہے ہیں کہ مودی تو اوباما سے اپنی دوستی کی قسمیں کھاتے تھے لیکن اب اچانک آخر ایسا کیوں ہو گیا۔

بھارت میں تاریخ دوبارہ کیوں لکھی جا رہی ہے؟